نرم مزاج مصطفیٰ قریشی فلمی دنیا کے نڈر ولن کیسے بنے؟

فلمی دنیا میں بطور ولن اپنا نام منوانے والے مصطفیٰ قریشی حقیقی زندگی میں بہت منکسر المزاج اور نرم گو انسان ہیں۔ پاکستان فلم انڈسٹری پر برسوں راج کرنے والے سینئر اداکار مصطفیٰ قریشی 11مئی 1940کو حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئے اور ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا۔

ان کی پہلی فلم 1958 میں ریلیز ہوئی، جس نے باکس آفس پر زبردست بزنس کیا، اس فلم میں نے انہیں منفرد شناخت اور پہچان دے دی اور اس پہلی فلم میں ہی مصطفیٰ قریشی نے اداکاری کی دھاک بٹھادی۔ پنجابی فلموں نے ان کی شہرت کو چار چاند لگادیے، پہلی پنجابی فلم ”چارخون دے پیاسے“ میں بھی یادگار کردار نبھایا۔ اسی طرح ”مولا جٹ“ میں سپر اسٹار مصطفیٰ قریشی نے سلطان راہی کے مدمقابل  نوری نت کے کردار کو بھی انمول بنادیا۔ انہوں نے 40 سال سے زائد عرصہ کے دوران ساڑھے چھ سو سے زائد فلموں میں پرفارم کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کی مشہور فلموں میں ”لاکھوں میں ایک، جی دار، سلطنت، حاجی بابا، پیا ملن کی آس، کٹاری، آسرا، آرزو، ظل شاہ، سہاگن، سوہا جوڑا، انگارے، چیف صاحب، ممی، سرگم، جیوا، ناگ دیوتا، وڈیرا سائیں، جوشیلے، گاڈ فادر، دریا خان، کوبرا، انٹرنیشنل گوریلے، شادمانی، قسمت والا، سانجھی ہتھکڈی، ضدی خان، خودار، بدلے دی آگ، ہانگ کانگ کے شعلے، سجاول ڈاکو، شعلے، سنگسار، جٹ دا ویر، حراست، ہٹلر، اسمگلر، گرفتار، خان دوست، چور سپاہی، حشر نشر، ہتھکڑی، پردیسی اور عندلیب سمیت دیگر شامل ہیں۔ مصطفیٰ قریشی نے جہاں فلم کے لیے کام کیا وہیں انہوں نے ڈرامہ انڈسٹری میں بھی اپنے فن کا لوہا منوایا۔ 1963ء میں فلم ’لاکھوں میں ایک‘ ریلیز ہوئی تو فلم نگر کے بڑے بڑے نام اس شاہکار فلم کے ساتھ منسلک تھے۔ مگر ان نامور ستاروں کے ساتھ پہلی بار ایک نیا فنکار شامل کیا گیا جس کو فلم کے باقی کرداروں جتنی ہی اہمیت دی گئی۔ تنگ موری کا سفید پاجامہ، سفید کرتا، کاندھے پر خوبصورت شال، بڑی بڑی آنکھیں، گھنی بھنویں، کشادہ پیشانی، نکلتا ہوا قد اور پورے جاہ و جلال سے گھوڑے پر سوار، یہ تھے مصطفیٰ قریشی۔ فلم ’لاکھوں میں ایک‘ میں ان کا کردار ولن کا تھا۔ ظلم، سفاکی، قتل و غارت گری، مصطفی قریشی تادیر ایسے ہی کردار ادا کرتے رہے، جب کہ حقیقی زندگی میں وہ اس قدر نرم خو انسان ہیں کہ کسی کو سوئی بھی چبھ جائے تو تڑپ جاتے ہیں۔

 

مصطفیٰ قریشی سندھ دھرتی کی تہذیب کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ مصطفیٰ کو گھر میں بھی اچھا ماحول ملا، نماز، قرآن، ﷲ اور ﷲ کے محبوب کا ذکر، گھر سے باہر شعر و ادب کا ماحول ملا، اختر انصاری اکبر آبادی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، اداکار ساقی، محمد علی، قربان جیلانی ودیگر اور پھر یہی ماحول انہیں حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن لے آیا۔ یہیں ان کی ملاقات روبینہ سے ہوئی۔ وہ کہتے ہیں ناں ’کبوتر با کتوبر، باز بہ باز‘ گلوکارہ روبینہ بھی انہی رنگوں میں رنگی ہوئی تھی جو رنگ مصطفیٰ قریشی کے تھے، روبینہ صوفیا کا کلام گاتی تھیں اور خوب ڈوب کر گاتی تھیں اور پھر ایک جیسے رنگ آپس میں مل کر دو گنا ہوگئے۔ دونوں نے شادی کر لی۔

سید موسیٰ رضا نامی سید زادہ فلمی دنیا کا سنتوش کمارکیسے بنا؟

 

مصطفیٰ قریشی یوں بھی خوش نصیب ٹھہرے کہ انہیں پہلی ہی فلم میں رضا میر جیسا لیجنڈ ہدایتکار مل گیا۔ انہوں نے مصطفیٰ قریشی سے خوب کام لیا۔ مصطفیٰ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو رضا میر باہر لے آئے اور پھر مصطفیٰ قریشی آگے ہی بڑھتے چلے گئے۔ حتیٰ کہ انکی مولا جٹ سے ملاقات ہوگئی۔ صاحب اسلوب اداکار سلطان راہی، گھن گرج والا سلطان راہی فلم مولا جٹ کا مولاجٹ تھا اور اسکے سامنے بھی مولا جٹ کو سوا سیر بن کر ٹکرنے والا ’نوری نت‘، یہی فلم مولاجٹ کا کمال تھا، یہی اسکا حسن تھا، اور پھر فلم کے ہدایت کار کی توقعات سے کہیں بڑھ کر ان دونوں کرداروں نے کر دکھایا۔ ایک طرف مولاجٹ کا غیظ و غضب میں دھاڑنا اور دوسری طرف نوری نت کا پرسکون اور دھیما لہجہ، دونوں نے فلم بینوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ اور اسی وجہ سے مولا جٹ کا ڈائیلاگ "اوئے مولے نوں مولا نہ مارے تے کوئی ہور نئیں مار سکدا‘‘ اور نوری نت یعنی مصطفیٰ قریشی کا ڈائیلاگ: نواں آیا ایں سوہنڑیاں ضرب المثل بن گیا۔ پھر بھی مصطفیٰ قریشی یہی کہا کرتے کہ ’سلطان راہی صاحب مکمل سوٹ ہیں، میں تو محض ٹائی ہوں‘۔

 

فقیر منش، مصطفیٰ قریشی، حبیب جالبؔ سے بہت پیار کرتے تھے، ان کے کردار سے بہت متاثر تھے۔ فلم نگری میں مصطفیٰ قریشی ہی تھے کہ جنہوں نے حبیب جالبؔ کی آخری دم تک خدمت کی، ان کے مونس وغم خوار بن کے رہے۔ حتیٰ کہ حبیب جالبؔ کو قبر میں اتارنے والے چند ہاتھوں میں مصطفیٰ قریشی کے ہاتھ بھی شامل تھے۔ مصطفیٰ نے اردو، پنجابی اور سندھی فلموں میں کام کیا اور سیاست بھی کی لیکن آجکل وہ فنکاروں کی فلاح وبہبود کےلیے کام کر رہے ہیں۔ فنکاروں کی فلاح کےلئے کوئی بھی پیش رفت کرے وہ اس کی تعریف ضرور کرتے ہیں۔ نصف صدی سے زائد شوبز سے وابستہ یہ عظیم اداکار نئے فنکاروں کےلیے ایک جیتی جاگتی اکیڈمی کا درجہ رکھتا ہے۔

Back to top button