سید موسیٰ رضا نامی سید زادہ فلمی دنیا کا سنتوش کمارکیسے بنا؟

بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سحر خیز شخصیت کے حامل پاکستانی انڈسٹری کے پہلے رومانوی اداکار سنتوش کمار سید زادے تھے اور انکا اصل نام سید موسی رضا تھا۔ اپنے کیریئر میں 92 فلموں میں کام کرنے والے سنتوش کمار نے جہاں فلمی دنیا پر اپنی پرفارمنس سے راج کیا، وہیں اپنے کردار سے ہر دل میں جگہ بنائی اور وہ عزت اور مقام حاصل کیا جو بہت کم اداکاروں کو نصیب ہوا۔

باوقار اور کرشماتی شخصیت کے مالک سنتوش کمار 25 دسمبر 1925 کو لاہور میں پیدا ہوئے، ان کا اصل نام سید موسی رضا تھا، رومانوی کرداروں کو اپنی اداکاری سے یادگار بنا دینے والے سنتوش کمار نے کئی اداکاراؤں کے ساتھ کام کیا، لیکن صبیحہ خانم کے آگے اپنا دل ہار دیا اور اپنے دور کی سب سے خوبرو اداکارہ کو اپنا شریک حیات بھی بنالیا۔ یہ قیام پاکستان کے بعد کی بات ہے جب افسانہ نگار سعادت حسن منٹو، شاعر احمد راہی اور ہدایت کار مسعود پرویز ایک فلم کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے۔ ہیرو کے کردار کےلیے کمال نامی اداکار کا انتخاب کیا جارہا تھا۔ ایک دن فلم کے پروڈکشن آفس میں مردانہ وجاہت اور مسحورکن آواز کا حامل ایک نوجوان کسی کام سے آتا ہے۔ ہدایت کار نے فطری ہیرو دکھائی دینے والے اس نوجوان کو کمال کی جگہ ہیرو کا کردار دینے کی پیش کش کردی۔ جسے انہوں قبول کرلی، 1950 میں ’بیلی‘ نام سے ریلیز ہونے والی یہ فلم شائقین سے بہت زیادہ مقبولیت نہ سمیٹ سکی مگر اس نے فلم انڈسٹری کو آنے والے دور کی سب سے مقبول اور مسحورکن فلمی جوڑی عطا کی۔ یہ پاکستانی فلمی صنعت کے اولین رومانوی فلمی جوڑے سنتوش کمار اور صبیحہ خانم کے فلم انڈسٹری میں قدم رکھنے کی داستان ہے۔

مردانہ وجاہت اور زبان و بیان کے حسن سے مالا مال سنتوش کمار دیکھتے ہی دیکھتے رومانوی ہیرو کے روپ میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے لگے۔ انہیں فلمی دنیا کے لیے سنتوش کمار کا نام دیا گیا جس کے بعد ان کا اصلی نام فلم کی اسکرینوں، شائقین کے ذہنوں اور تاریخ کے صفحوں سے غائب ہوگیا۔

ان کے والد کاروباری شخصیت تھے۔ وہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدرآباد دکن منتقل ہوگئے تھے۔ موسیٰ رضا نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے گریجویشن کی۔ مقابلے کا امتحان پاس کرکے تحصیل دار کے عہدے کےلیے بھی منتخب ہوگئے تھے، مگر افتاد طبع اور مردانہ جمال کے باعث نوکری کے بجائے فلمی دنیا سے وابستگی اختیار کرلی۔

 

سنتوش کمار یعنی سید موسی رضا کے چھوٹے بھائی اداکار درپن جن کا اصلی نام سید عشرت رضا تھا وہ بھی اپنے دور کے سپر اسٹار تھے، سنتوش اور درپن کو یہ نام رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی اس بارے میں معروف صحافی و کالم نگار مسعود اشعر کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں مسلمان اداکار اپنا اصلی نام ظاہر کرنا معیوب خیال کرتے تھے۔ اشوک کمار اور دلیپ کمار اتنے مشہور ہو چکے تھے کہ ان کے نام پر اپنا فلمی نام رکھنا لوگ اپنی عزت اور نیک شگون سمجھتے تھے۔ موسیٰ رضا نے بمبئی کی فلمی زندگی میں اس روایت کے زیر اثر اپنا نام سنتوش کمار رکھ لیا۔ پاکستانی فلم انڈسٹری میں 50 اور 60 کی دہائی رومانوی فلموں کے عروج کے حوالے سے یاد رکھی جاتی ہے۔ فلم ساز انور کمال پاشا نے اپنے والد حکیم احمد شجاع پاشا کے ناول ’باپ کا گناہ‘ کی فلمی تشکیل ’دو آنسوؤں‘ کے نام سے کی۔ اس فلم میں سنتوش کمار کی دل موہ لینے والی اداکاری نے ان پر مقبولیت کے دروازے کھول دیے۔

 

ملکہ ترنم نور جہاں کی قیام پاکستان کے بعد بحیثیت اداکارہ اور گلوکارہ پہلی فلم ’چن وے‘ تھی جس میں ان کے مد مقابل سنتوش کمار نے ہیرو کا کردار ادا کیا۔ ماسٹر فیروز نظامی کی مدھر دھنوں اور استاد دامن کے رس بھرے گیتوں نے اسے یادگار فلموں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

1953 میں سنتوش کمار اور سورن لتا کی فلم ’شہری بابو‘ نے دھوم مچا دی۔ اس فلم کی خاص بات ماسٹر عنایت حسین بھٹی کا صوفی گیت ’بھاگاں والیو نام جپو‘ کا نیا تجربہ تھا۔ سنتوش کمار نے اپنے دور کی تمام خواتین اداکاروں کے ساتھ یادگار فلمی کردار ادا کیے۔ سورن لتا، شمیم آرا، شمی، مسرت نذیر، آشا بھوسلے، مینا شوری، اور راگنی کے ساتھ ان کی درجنوں رومانوی فلموں نے شائقین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا۔

سنتوش کمار اور صبیحہ کی جوڑی نے پاکستانی فلم انڈسٹری میں جذبات سے بھرپور رومانوی اداکاری کی روایت کی داغ بیل ڈالی۔ ’سر فروش‘ اور ’قاتل‘ نامی فلموں سے  اس خوبرو جوڑے کی چرچے ہونے لگے۔ 1957 اس جوڑی کےلیے کامیاب فلموں کا سال تھا۔ ’عشق لیلی‘ وعدہ ’سردار‘ اور ’سات لاکھ‘ جیسی شاہکار فلموں نے دونوں کی شہرت آسمان کی بلندی تک پہنچا دی۔

سعادت حسن منٹو عمر بھر تنازعات کا شکار کیوں رہے؟

 

برصغیر کے نامور میوزک ڈائریکٹر خواجہ خورشید انور کے ساتھ انکی فلموں ’انتظار‘ اور ’گھونگھٹ‘ میں اداکاری پر بہترین اداکار کا ایوارڈ بھی سنتوش کمار کے حصے میں آیا۔ رومانوی ہیرو کی پہچان رکھنے والے اس فنکار نے ’سرفروش‘ نامی ایکشن فلم میں بھی کام کیا اور فلمی شائقین سے خوب داد سمیٹی۔ انور کمال پاشا کی یہ فلم اپنے زور دار مکالموں کی وجہ سے فلم بینوں کے دل و دماغ پر چھا گئی۔ سنتوش کمار اس فلم میں ایک چور کا کردار ادا کرتے ہیں۔ نامور فلمی مصنف علی سفیان آفاقی کی کتاب ’فلمی الف لیلی‘ کے مطابق جب ہیرو چوری کی نیت سے ایک گھر میں داخل ہوتا ہے۔ سامان سمیٹ کر چلنے لگتا ہے تو اذان کی آواز سن کر وہی نماز پڑھنا شروع کر دیتا ہے۔ اسی دوران ہیروئن کی آنکھ کھل جاتی ہے، اس کے استفسار کے جواب میں سنتوش کمار کا مکالمہ ’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘ اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی ایک حوالے اور استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ مشہور فلم ڈائریکٹر ڈبلیو زیڈ احمد کی فلم ’وعدہ‘ سنتوش کمار کےلیے دو حوالوں سے اہم تھی۔ اس کے ذریعے نہ صرف انہوں نے فلمی اداکاری کا معتبر ایوارڈ ’نگار‘ جیتا بلکہ اس کی شوٹنگ کے دوران انہوں نے صبیحہ خانم کا دل بھی جیت لیا۔

صبیحہ خانم کا اصل نام مختار بیگم اور تعلق گجرات کے ایک لوک فنکار گھرانے سے تھا۔ ان کے والد محمد علی کو ماہیا گانے کی وجہ سے محمد علی ماہیا کہا جاتا تھا۔ اداکاری کا شوق انہیں لاہور لے آیا۔ تھیٹر کے ہدایتکار نفیس خلیلی کے ڈرامے بت شکن میں اداکاری سے فنکارانہ زندگی کا آغاز کیا اور متاثر کن اداکاری پر نفیس خلیلی نے مختار بیگم کو صبیحہ خانم کا نام دیا۔

سنتوش اور صبیحہ 1958 میں شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ یہ سنتوش کی دوسری شادی تھی۔ ان کی پہلی بیوی جمیلہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون تھیں جس نے خوش دلی سے صبیحہ کو قبول کرلیا۔

عمر بھر دونوں میں مثالی تعلقات قائم رہے، یہاں تک کہ سنتوش کے انتقال کے بعد امریکہ جانے سے چند برس قبل وہ جمیلہ بیگم کے ساتھ ہی رہائش پذیر رہیں۔ صرف صبیحہ اور سنتوش کی جوڑی ہی نہیں بلکہ یہ سارا گھرانہ فلم سے وابستہ رہا ہے۔ ایک ہی خاندان کے اتنے سارے افراد کے فلموں میں نمایاں ہونے کی شاید ہی کوئی دوسری مثال موجود ہو۔

اداکار درپن جن کا اصلی نام سید عشرت رضا تھا سنتوش کمار کے چھوٹے بھائی تھے۔ فلم عدل جہانگیری میں ان کا نام درپن پڑا۔ اور یہی نام تاحیات تعارف اور شہرت کا باعث بنا۔ ملکہ جذبات کے نام سے جانی جانے والی اداکارہ نیرہ سلطانہ درپن کی بیوی تھی۔ ان کے تیسرے بھائی ایس سلیمان پاکستانی فلمی صنعت کے کامیاب فلم ساز تھے اور ان کی شادی معروف کلاسیکل رقاصہ بیگم زرین پنو سے ہوئی۔ پاکستانی فلموں میں رومانویت کی جو روایت سنتوش سے چلی تھی آنے والے برسوں میں محمد علی، وحید مراد اور ندیم نے اسے مزید آگے بڑھایا۔

تقخم 1971  میں فلم ’گھرہستی‘ کے بعد سنتوش نے خود کو بتدریج فلموں سے دور کرنا شروع کر دیا۔

دلکش مکالموں اور دلسوز انداز والے سنتوش کمار نے 11 جون 1982 کو لاہور میں آخری سانسیں لیں۔

دماغ کی شریان پھٹ جانے کی وجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ 2010 میں پاکستان پیپلز پارٹی حکومت نے سنتوش کمار کو بعد از مرگ ستارہ امتیاز کا ایوارڈ عطا کیا۔ ان کی آخری فلم ’دیوانے دو‘ میں اداکارہ بابرہ شریف ہیروئن تھی۔ یہ فلم ان کی وفات کے بعد 1985 میں ریلیز ہوئی۔

ان کے چھوٹے بھائی درپن کا انتقال ان سے ایک برس قبل ہوچکا تھا۔ تیسرے بھائی ایس سلیمان کا انتقال 2021 میں ہوا۔ صبیحہ خانم سے ان کے تینوں بچے امریکہ میں مقیم ہیں۔ جب کہ جمیلہ بیگم کے بیٹے محسن رضا لاہور میں اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ ان کے ایک بیٹے کا نام اپنے دادا کے نام پر موسی رضا ہے۔ وہ سنتوش کمار کے برانڈ نام سے ملبوسات اور فیشن کے کاروبار سے وابستہ ہیں۔

صبیحہ اور سنتوش نے دو دہائیوں تک پاکستانی فلموں پر راج کیا۔ صبیحہ نے  سنتوش کے بغیر زندگی کے 38 برس گزارے اور 13 جون 2020 کو امریکہ میں ان کا انتقال ہوا۔

Back to top button