سعادت حسن منٹو عمر بھر تنازعات کا شکار کیوں رہے؟

اُردو کی متعدد تصانیف ایسی ہیں جن پر مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلے، ایسی تصانیف ضبط ہوئیں اور بعض مصنفین کو قید و بند یا جرمانے کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔ ان تصانیف میں ڈپٹی نذیر احمد کی ’امہات الامہ‘، منشی پریم چند کی ’سوز وطن‘ اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کے مجموعے ’انگارے‘ کے نام سرفہرست ہیں۔ مگر سعادت حسن منٹو تمام مصنفین پر بازی لے گئے۔

 

قیام پاکستان سے قبل منٹو کے تین افسانوں ’کالی شلوار‘، ’دھواں‘ اور ’بُو‘ پر فحاشی کے الزام میں مقدمات چلے جن میں انکو سزائیں بھی ہوئیں لیکن ہر مرتبہ اپیل کرنے پر عدالت میں منٹو اور ان کے افسانوں کو فحش نگاری کے الزام سے بری کر دیا گیا۔

 

قیام پاکستان کے بعد منٹو نے جو پہلا افسانہ تحریر کیا اس کا نام ’ٹھنڈا گوشت‘ تھا۔ منٹو کا یہ شہرہ آفاق افسانہ لاہور کے ادبی ماہنامہ ’جاوید‘ کی مارچ 1949 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ 30 مارچ 1949 کو رسالے کے دفتر پر چھاپہ پڑا اور اس کی تمام کاپیاں ضبط کر لی گئیں۔ چھاپے کا سبب ’ٹھنڈا گوشت‘ کی اشاعت تھی۔ سات مئی 1949 کو حکومت پنجاب کی پریس لا برانچ نے سعادت حسن منٹو کے علاوہ ’جاوید‘ کے مدیر عارف عبدالمتین اور ناشر نصیر انور کے خلاف ٹھنڈا گوشت کی اشاعت پر مقدمہ درج کروا دیا۔

 

منٹو نے ٹھنڈا گوشت پر چلنے والے کیس کی مکمل روداد اسی نام سے چھپنے والے افسانوی مجموعے کے پیش لفظ میں ’زحمت مہر درخشاں‘ کے نام سے تحریر کی ہے۔ منٹو لکھتے ہیں کہ ’جب میں ہندوستان کی سکونت ترک کر کے جنوری 1948 میں لاہور پہنچا تو تین مہینے تک میرے دماغ کی حالت عجیب و غریب رہی۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں کہاں ہوں؟ ہندوستان میں ہوں یا پاکستان میں۔ بار بار دماغ میں الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا، کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہو گا؟ اگر ہوگا تو کیسے ہوگا؟

 

منٹو مزید لکھتے ہیں کہ میرے ذہن میں ایک اور سوال یہ تھا کہ وہ سب کچھ جو غیر منقسم ہندوستان میں لکھا گیا ہے اس کا مالک کون ہے؟ کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا؟ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں؟ کیا ہماری ریاست مذہبی ریاست ہے؟ ریاست کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہو گی؟ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے؟

 

اس کے بعد منٹو فیض، چراغ حسن حسرت، احمد ندیم قاسمی اور ساحر لدھانوی سے ملے مگر کوئی بھی ان کے سوالات کا جواب نہیں دے سکا۔ اس دوران منٹو نے ہلکے پھلکے مضامین لکھنے شروع کیے جو ’امروز‘ میں شائع ہوئے۔ ان کے مضامین کا یہ مجموعہ بعد میں ’تلخ، ترش اور شیریں‘ کے عنوان سے شائع ہوا۔ اسی زمانے میں احمد ندیم قاسمی نے لاہور سے ’نقوش‘ جاری کیا۔ قاسمی کی فرمائش پر منٹو نے پاکستان میں اپنا پہلا افسانہ ’ٹھنڈا گوشت‘ تحریر کیا۔ منٹو لکھتے ہیں کہ قاسمی صاحب نے یہ افسانہ میرے سامنے پڑھا۔ افسانہ ختم کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے معذرت بھرے لہجے میں کہا منٹو صاحب، معاف کیجیے، افسانہ بہت اچھا ہے، لیکن نقوش کےلیے بہت گرم ہے، چند دن کے بعد قاسمی صاحب کی فرمائش پر منٹو نے ایک اور افسانہ لکھا جس کا عنوان ’کھول دو‘ تھا۔ یہ افسانہ نقوش میں شائع ہوا مگر اسکی پاداش میں حکومت نے نقوش کی اشاعت چھ ماہ کےلیے معطل کر دی۔اخبارات میں حکومت کے اس اقدام کے خلاف احتجاج ہوا مگر حکومتی حکم اپنی جگہ برقرار رہا۔

 

مودی سرکار پاکستان کے ساتھ سیز فائر پر مجبور کیوں ہوئی؟

 

جگدیش چندر ودھاون نے اپنی کتاب ’منٹو نامہ‘ میں لکھا ہے کہ احمد ندیم قاسمی کی معذرت کے بعد منٹو نے ’ٹھنڈا گوشت‘ ادب لطیف کے مدیر چوہدری برکت علی کو دے دیا مگر یہ افسانہ اس رسالے میں بھی شائع نہ ہو سکا۔ اس کے بعد منٹو نے یہ افسانہ ممتاز شیریں کو روانہ کیا مگر انہوں نے بھی اسے پسند کرنے کے باوجود چھاپنے سے معذرت کر لی۔ ممتاز شیریں کے بعد عارف عبدالمتین نے اپنے رسالے جاوید کے لیے منٹو سے ’ٹھنڈا گوشت‘ بہت اصرار سے مانگا۔ اس وقت یہ افسانہ ’سویرا‘ کے مالک چوہدری نذیر احمد کے پاس تھا چنانچہ منٹو نے ایک رقعہ ان کے نام لکھا جو کچھ یوں تھا: جاوید والے اپنا پرچہ ضبط کروانا چاہتے ہیں براہ کرم ان کو ٹھنڈا گوشت کا مسودہ دے دیجئے۔

 

یوں عارف عبدالمتین نے یہ افسانہ حاصل کر لیا اور اسے اپنے ادبی رسالے جاوید کے مارچ 1949 کے ایڈیشن میں شائع کر دیا۔ منٹو نے لکھا ہے کہ جاوید کے دفتر پر اس افسانے کی اشاعت کے بعد پریس لا برانچ کے انچارج چوہدری محمد حسین نے چھاپہ مارا اور رسالے کی تمام کاپیاں ضبط کر لیں۔ منٹو لکھتے ہیں کہ ’گو ضعیفی کے باعث چوہدری محمد حسین کے ہاتھ کمزور ہو چکے تھے مگر انہوں نے زور کا ایک جھٹکا دیا اور پولیس کی مشینری حرکت میں آ گئی۔

 

ٹھنڈا گوشت منٹو کےلیے بہت گرم افسانہ ثابت ہوا، اس نے منٹو جیسے سخت جان کے بل نکال کر رکھ دیے۔ معاملہ پریس ایڈوائزری بورڈ کے سامنے پیش ہوا جس کے کنوینر پاکستان ٹائمز کے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے اور بورڈ میں سول اینڈ ملٹری گزٹ کے ایف ڈبلیو بسٹن، زمیندار کے مولانا اختر علی، نوائے وقت کے حمید نظامی، سفینہ کے وقار انبالوی اور جدید نظام کے امین الدین صحرائی شامل تھے۔ چوہدری محمد حسین نے بورڈ کے سامنے پرچے کے دیگر باغیانہ اور اشتعال انگیز مضامین پیش کیے مگر بورڈ نے ان الزامات کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم نزلہ بالآخر ٹھنڈا گوشت پر گِرا۔ فیض صاحب نے اسے غیر فحش قرار دیا مگر مولانا اختر علی، وقار انبالوی اور حمید نظامی نے اسے ’ملعون‘ قرار دیا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اب معاملہ عدالت پر چھوڑ دیا جائے۔ چند دن بعد منٹو اور جاوید کے ناشر نصیر انور اور مدیر عارف عبدالمتین گرفتار کر لیے گئے۔ منٹو کی ضمانت ان کے دوست شیخ سلیم نے دی، ممتاز شاعر اور ماہر قانون میاں تصدق حسین خالد نے خود بھی مقدمے کی پیروی کرنے کی پیشکش کی جو منٹو نے شکریے کے ساتھ وبول کر لی۔

 

ٹھنڈے گوشت کا مقدمہ مجسٹریٹ اے ایم سعید کی عدالت میں پیش ہوا۔ استغاثے کی جانب سے مسٹر محمد یعقوب، محمد طفیل حلیم، ضیا الدین احمد اور چند دیگر افراد پیش کیے گئے۔ صفائی کے گواہان میں سید عابد علی عابد، احمد سعید، ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم، ڈاکٹر سعید اللہ، فیض احمد فیض، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم اور ڈاکٹر آئی لطیف نے منٹو کے حق میں بیانات قلمبند کروائے۔

 

عدالت کی جانب سے چار گواہ تاجور نجیب آبادی، آغا شورش کاشمیری، ابو سعید بزمی اور محمد دین تاثیر پیش ہوئے۔ پہلے تین گواہان نے افسانے کو ’ذلیل، گندا اور قابل اعتراض‘ قرار دیا جب کہ ڈاکٹر تاثیر کا کہنا یہ تھا کہ یہ افسانہ ادبی لحاظ سے ناقص ہے لیکن ہے ادبی۔ انکا کہنا تھا کہ اس افسانے کے کچھ ایسے الفاظ ہیں جن کو غیر شائستہ کہا جاسکتا ہے لیکن میں اسے فحش اس لیے نہیں کہتا کہ لفظ فحش کی تعریف بارے میں خود واضح نہیں ہوں۔ ان گواہان کے بیانات کے بعد منٹو نے اپنا تحریری بیان داخل کیا۔

 

جگدیش چندر ودھاون لکھتے ہیں آخر 16 جنوری 1950 کی تاریخ آن پہنچی۔ عدالت نے ملزمان کو فحش افسانہ لکھنے اور چھاپنے کے الزام میں 300 روپے فی کس جرمانے کی سزا سنائی اور منٹو کو تین ماہ قید جب کہ نصیر انور اور عارف عبدالمتین کو 21، 21 یوم کی قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ ملزمان نے اس فیصلے کے خلاف سیشن عدالت میں اپیل کی جہاں مجسٹریٹ عنایت اللہ خان نے اپیل منظور کرتے ہوئے ماتحت عدالت کا فیصلہ منسوخ کر دیا اور تینوں ملزمان کو باعزت بری کرتے ہوئے ان کا ادا کردہ جرمانہ واپس کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

 

مگر حکومت نے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر اور جسٹس محمد جان نے اپیل کی سماعت کی۔ انہوں نے آٹھ اپریل 1952 کو اپنا فیصلہ سنایا۔ یہ فیصلہ بہت مدلل تھا اور فحاشی پر دیے گے عدالتی فیصلوں میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ جسٹس منیر نے فیصلے میں لکھا کہ ٹھنڈا گوشت کا خاکہ بے ضرر ہے مگر تفصیلات اور بیان فحش ہیں چنانچہ سعادت حسن منٹو اور ان کے ساتھیوں کو 300 روپے فی کس جرمانہ یا عدم ادائی جرمانہ کی صورت میں ایک ماہ قید سخت کی سزا کا حکم سنایا جاتا ہے۔ یوں پاکستان کی ادبی اور عدالتی تاریخ کا یہ منفرد مقدمہ اپنے انجام کو پہنچا۔

 

ٹھنڈا گوشت کا قضیہ ختم ہوا تو چند برس بعد منٹو ایک اور افسانے ’اوپر، نیچے اور درمیان‘ لکھنے پر فحاشی کے ایک اور کیس کی زد میں آ گئے۔ یہ افسانہ سب سے پہلے لاہور کے اخبار ’احسان‘ میں شائع ہوا۔ اس وقت تک چوہدری محمد حسین وفات پا چکے تھے چنانچہ لاہور میں خیریت رہی مگر بعدازاں جب یہ افسانہ کراچی کے ایک پرچے ’پیام مشرق‘ میں شائع ہوا تو صوبائی حکومت حرکت میں آئی اور منٹو کو عدالت میں طلب کر لیا گیا۔ یہ مقدمہ مجسٹریٹ مہدی علی صدیقی کی عدالت میں پیش ہوا جنہوں نے صرف چند سماعتوں کے بعد منٹو کو 25 روپے جرمانہ کیا جو فوراً ادا کر دیا گیا اور یوں اس کیس سے بھی منٹو کی خلاصی ہو گئی۔

Back to top button