کرپٹوکرنسی پرسٹیٹ بینک اورحکومت آمنےسامنے کیسے آ گئے؟

پاکستان میں کرپٹو کرنسی کا مستقبل شکوک و شبہات کا شکار دکھائی دیتا ہے جہاں ایک طرف وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور کرپٹو کرنسی کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نے پاکستان کے سرکاری سطح پر پہلے سٹریٹجک بٹ کوائن ریزرو کا اعلان کر دیا ہے وہیں دوسری جانب وزارت خزانہ اور سٹیٹ بینک  نے انکشاف ہےکہ پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر پابندی عائد ہے اور ابھی تک اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پاکستان میں کرپٹو کرنسی بارے سامنے آنے والے تضادات کے بعد سرمایہ کار پریشانی کا شکار ہیں کہ وہ کس طرح اس کاروبار میں اپنا پیسہ لگا سکتے ہیں جس کے قانونی حیثیت ہی مشکوک ہے جس کے بعد اکثریتی سرمایہ کاروں نے پاکستان میں کرپٹو کرنسی میں فوری سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

خیال رہے کہ وفاقی سیکرٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے جمعرات کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں انکشاف کیا کہ ’کرپٹو کونسل کا قیام وزیراعظم کے ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے عمل میں لایا گیا‘، تاہم پاکستان میں کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر تاحال پابندی برقرار ہے۔ وفاقی حکومت نے ملک میں ابھی تک کرپٹو کرنسی کے کاروبار کو قانونی حیثیت نہیں دی۔حکومت نے کرپٹو کرنسی کونسل قائم کر کے اس پر ابتدائی کام کا آغاز کیا ہے تاہم کرپٹو کرنسی کے کاروبار کےلیے قانونی اور ریگولیٹری فریم ورک کی ضرور ت ہوگی،تاہم کرپٹو کرنسی کے حوالے سے مزید تفصیلات کرپٹو کونسل ہی بتا سکتی ہے۔ سیکریٹری خزانہ امداداللہ بوسال نے مزید کہا کہ کرپٹو کرنسی کے کاروبار پر پاکستان میں پابندی ہےاور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں،’فی الحال کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ابتدائی بات چیت ہو رہی ہے، جب کہ سٹیٹ بینک اور سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان میں کرپٹو پر ابھی تک پابندی برقرار ہے۔‘ کرپٹو کونسل وزیراعظم کے ایگزیکٹوآرڈر پر قائم کی گئی ہے، وزیر خزانہ کونسل کے سربراہ ہیں جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی بلال بن ثاقب کونسل کے سی ای او ہیں، اسٹیٹ بینک ، ایس ای سی پی کی اس میں نمائندگی ہے، سیکریٹری خزانہ نے مزید کہا کہ انھیں اس قابل نہیں سمجھاگیا کہ کرپٹو کونسل کا ممبر بنایا جاتا، دریں اثنا سٹیٹ بنک کے ایگزیکٹو ڈائر یکٹر سہیل جواد نے کمیٹی کو بتایا کہ سٹیٹ بنک نے کرپٹو اور بٹ کوائن پر کرپٹو کونسل کو اپنی سفارشات دے دی ہیں تاہم اس کےلیے ریگولیٹری فریم ورک ہونا چاہیے ، انہوں نے بتایا کہ ابھی تک دنیا میں صرف ایک ملک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دی گئی ہے تاہم وہ بھی اپنے فیصلے کو واپس لے رہے ہیں۔ سٹیٹ بینک حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ مرکزی بینک اور ایس ای سی پی نے مل کر کرپٹو کرنسی کے معاملے پر ابتدائی کام شروع کیا ہے، کرپٹو کرنسی فی الحال ادائیگی کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی۔

سیکریٹری خزانہ کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب نےامریکہ میں ایک تقریب ’بٹ کوائن ویگاس 2025 ‘ میں اعلان کیا ہے کہ پاکستانی حکومت کی زیر قیادت بٹ کوائن سٹریٹجک ریزرو قائم کر رہی ہے۔‘انہوں نے مزید کہا تھا کہ ’یہ نیشنل بٹ کوائن والٹ، قیاس آرائیوں کے لیے نہیں ہے۔ ہمارے پاس یہ بٹ کوائنز ہوں گے اور ہم انہیں کبھی فروخت نہیں کریں گے۔‘بلال بن ثاقب  نے کہا کہ ’ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں طاقت چند لوگوں سے عوام میں منتقل ہوگی۔ بٹ کوئن خطرہ نہیں بلکہ ایک موقع ہے، ایسا موقع جو آزادی اور خود مختاری دیتا ہے۔تقریب سے خطاب میں بلال بن ثاقب نے ایک قومی بٹ کوائن والٹ کے قیام کا بھی اعلان کیا، انہوں نے کہا کہ حکومت نے پہلے مرحلے میں بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے دو ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی مختص کی ہے۔ان کے مطابق یہ بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز  خود مختار مائنرز، ٹیک کمپنیوں، اور بین الاقوامی بلاک چین فرمز کے لیے دروازے کھول رہا ہے۔

جہاں ایک طرف پاکستان میں پہلے قومی بٹ کوائن سٹریٹجک ریزرو قائم کرنے کی بات ہو رہی ہے وہیں دوسری جانب حکام کی جانب سے ہی  بٹ کوائن کو غیر قانونی قرار دیا جا رہا ہے اسی تناظر میں قائمہ کمیٹی اجلاس کے دوران رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ نے سیکرٹری خزانہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ کہہ رہے ہیں کہ کرپٹو پر پابندی ہے لیکن لوگ سرمایہ کاری کر رہے ہیں، آپ نے کرپٹو کی پروجیکشن ایسی کی ہے کہ لوگ اس طرف آ رہے ہیں۔’اگر کل کو کرپٹو کرنسی قبول نہیں کی جاتی تو لوگوں کا پیسہ تو ڈوب جائے گا۔ ایسا کوئی بیان جاری کریں کہ کرپٹو ابھی قانونی فریم ورک سے گزر رہی ہے۔‘

اجلاس کے دوران رکن کمیٹی شرمیلا فاروقی نے کہا کہ کرپٹو کرنسی سے منی لانڈرنگ ، ٹیکس چوری ہورہی ہے، حکومت کو اس حوالے سے آگاہی مہم چلانی چاہیے تاہم اگر کرپٹو کرنسی پاکستان میں تاحل غیر قانونی ہے تو بتایا جائے کہ اس کی مائننگ کے لیے دو ہزار میگا واٹ بجلی کس وجہ سے رکھی گئی ہے؟ جبکہ رکن کمیٹی مرزا اختیار بیگ نے کہا کہ کرپٹو مائننگ کے لیے آٹھ سے 10 سینٹس بجلی کی قیمت رکھی گئی ہے، جبکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کتنے عرصہ سے برآمدات بڑھانے کے لیے یہ ٹیرف مانگ رہی ہے جبکہ پاکستان کرپٹو کونسل کے سربراہ بلال بن ثاقب بٹ کوائن مائننگ اور اے آئی ڈیٹا سینٹرز کے لیے ’دو ہزار میگاواٹ سستی بجلی‘ مختص کرنے کا اعلان کر چکے ہیں۔سوالات کی بوچھاڑ پر سیکرٹری خزانہ اور سٹیٹ بینک حکام نے ہاتھ کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ ان سوالات کا جواب کرپٹو کونسل ہی دے سکتی ہے، اس لیے انہیں آئندہ اجلاس میں بلایا جائے۔

اجلاس کے دوران اراکین کا مزید کہنا تھا کہ  ’سٹیٹ بینک کرپٹو کرنسی کو کیوں نہیں دیکھ رہا؟ سرکار کیوں دیکھ رہی ہے؟ ایک طرف کہہ رہے ہیں کہ کرپٹو قانونی نہیں، دوسری طرف بجلی مختص کر دی۔ کرپٹو کونسل کے سی ای او تو بہت اہم لوگوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔‘کرپٹو میں کچھ عرصے بعد کئی ڈالر ملک سے باہر چلے جائیں گے اور حکومت سر پکڑ کر بیٹھ جائے گی کہ یہ کیا ہو گیا۔ اراکین  نے سوال اٹھایا کہ کیا حکومت خود کرپٹو کی مائننگ کرنے میں دلچسپی لے رہی ہے یا نجی سیکٹر کرے گا؟ پہلے حوالہ ہنڈی ہوتی تھی اب کرپٹو کے ذریعے پیسہ باہر جاتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کرپٹو کرنسی کو 2000 میگاواٹ بجلی دینے کی بجائے یہی بجلی صنعتوں کو کیوں نہیں دی جاتی؟ جس پر سٹیٹ بینک کے حکام نے جواب دیا کہ مرکزی بینک کی جانب سے کرپٹو کرنسی پر پالیسی میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔‘ کرپٹو کرنسی کا استعمال اب بھی پاکستان میں غیر قانونی ہے۔

Back to top button