آصف زرداری باقی اپوزیشن سے ایک قدم آگے کیسے چلتے ہیں؟
بلاول بھٹو کی زیر قیادت کراچی سے شروع کیے جانے والے عوامی لانگ مارچ کے اسلام آباد پہنچتے ہی وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروانے سے ثابت ہوگیا کہ آصف علی زرداری اہنی سیاسی چالوں میں باقی اپوزیشن جماعتوں سے ہمیشہ ایک قدم آگے چلتے ہیں۔ اسلام آباد میں عوامی لانگ مارچ کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے عوام سے وعدہ کیا کہ وہ عوام دشمن عمران حکومت سے قوم کی جان چھڑوانے والے ہیں اور اچھے دن شروع ہونے والے ہیں۔
سندھ چونکہ ایک عرصے سے پیپلز پارٹی کا گڑھ رہا ہے، اسی لیے سیاسی مبصرین کی نظریں پنجاب پر تھیں کہ پنجاب بلاول اور پیپلز پارٹی کا استقبال کیسے کرے گا؟ کیا لوگ سابق وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے صاحبزادے کی تقریریں سُننے باہر نکلیں گے؟ نکلیں گے تو کتنی تعداد میں ہوں گے؟ اور کیا بلاول اور ان کا مارچ پنجاب میں اپنی جماعت کے ’سنہری دن‘ واپس لا سکیں گے؟ یہ وہی پنجاب ہے جہاں سے ایک سیاسی جماعت کے طور پر سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کے سفر کا آغاز ہوا تھا۔ انتخابی اعتبار سے مرکزی حیثیت رکھنے والے پنجاب سے ملنے والی حمایت نے جلد ہی پیپلز پارٹی کو ایک قومی سیاسی طاقت بنا کر کھڑا کر دیا تھا۔
پھر وقت بدلا۔ ذوالفقار علی بھٹو نہ رہے۔ لیکن ان کی جماعت کا ووٹ بینک پھر بھی پنجاب میں متحرک رہا۔ جماعت کی باگ ڈور ان کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے سنبھالی۔ وہ ایک سے زیادہ مرتبہ وزیرِ اعظم بنیں۔ پھر جلا وطن ہوئیں۔ 2007 میں وطن واپس لوٹیں۔ صوبہ پنجاب ہی میں دہشتگردی کی ایک کارروائی میں ان کی ہلاکت ہوئی۔ اگلے ہی برس عام انتخابات کے بعد ان کی جماعت نے مرکز میں حکومت قائم کی۔ لیکن صوبہ پنجاب میں وہ حکومت نہ بنا سکیں۔
پانچ سال بیتے مگر پنجاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے حالات نہ بدلے۔ گذشتہ عام انتخابات میں وہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں محض چھ نشستیں حاصل کر پائی۔
گذشتہ کئی برسوں سے پنجاب اور خصوصاً جی ٹی روڈ کے دونوں اطراف واقع علاقوں کو حزبِ اختلاف کی بڑی جماعت مسلم لیگ نواز کا گڑھ مانا جاتا رہا ہے تاہم گذشتہ الیکشن کے بعد تحریک انصاف کی یہاں حکومت قائم ہوئی۔ اسی پس منظر میں بلاول بھٹو ایک ’عوامی مارچ‘ کو لے کر چند روز قبل پنجاب میں داخل ہوئے تھے حالانکہ ایک برس پہلے مسلم لیگ نون اور جمعیت علمائے اسلام نے پیپلزپارٹی کو لانگ مارچ ہر اتفاق نہ کرنے کی پاداش میں پی ڈی ایم اتحاد سے فارغ کر دیا تھا۔
گذشتہ تقریباً دو دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ پیپلز پارٹی کے بانی بھٹو خاندان کی وارث سمجھے جانے والی کوئی شخصیت لانگ مارچ کی قیادت کرتی پنجاب آ رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے مارچ نے صوبہ سندھ میں کراچی سے 27 فروری کو سفر کا آغاز کیا تھا اور تین روز کے اندر ہی وہ رحیم یار خان کے مقام سے پنجاب میں داخل ہو گئے تھے۔ ان کے ساتھ ایک بہت بڑا ہجوم اور گاڑیوں کا ایک طویل قافلہ تھا۔ بلاول بھٹو زرداری ایک خصوصی طور پر تیار کیے گئے ٹرک پر سوار ہیں۔ وہ مختلف شہروں اور مرکزی مقامات پر پڑاؤ کرتے مسلسل جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کرتے رہے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں اُنکے سفر کا دورانیہ لگ بھگ ایک ہفتے پر محیط تھا۔ اس میں اُن کا زیادہ وقت جنوبی پنجاب میں گزرا۔ پنجاب میں مختلف شہروں میں ہونے والے اُن کے جلسوں کو دیکھنے والے صحافیوں کے مطابق لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد تقریباً ہر مقام پر نظر آئی۔ خصوصاً جی ٹی روڈ پر ان جلسوں کے دوران جشن کا سماں رہا۔
تاہم مبصرین کے سامنے اب سوال یہی ہے کہ بلاول بھٹو پنجاب میں اپنی جماعت کی پوزیشن بہتر کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوئے؟ سینئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی بھی مارچ کے ساتھ سفر کر رہی تھیں اور مختلف شہروں میں بلاول بھٹو زرداری کے جلسے دیکھتی آ رہی ہیں۔
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ اُن کے خیال میں بلاول بڑی حد تک پنجاب کے حوالے سے طے کیے گئے اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتے نظر آئے ہیں۔ ’میرے خیال میں وہ اپنے مقاصد میں 70 فیصد تک کامیاب رہے۔ یہ 25 برس میں پہلا موقع تھا کہ پیپلز پارٹی کی بھٹو خاندان سے قیادت پنجاب میں اس طرح لانگ مارچ کر رہی تھی۔‘
عاصمہ شیرازی نے بتایا کہ مختلف شہروں میں ان کی جلسوں میں شریک ہونے والے لوگوں سے بات چیت ہوئی۔ یہ زیادہ تر ان علاقوں کے مقامی افراد ہوتے تھے۔ ’انھوں نے ہمیں بتایا کہ کئی برسوں سے ان کی جماعت کی قیادت ان کے پاس نہیں آئی تھی۔ اب بلاول کے آنے سے انھیں لگتا ہے کہ ان کی قیادت نے ان کو ایک مرتبہ پھر اپنایا ہو۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق انھوں نے پی پی پی کے مارچ کے دوران نوجوانوں اور خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد کو بھی موجود دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ جتنے بھی لوگ مختلف شہروں میں جلسوں میں شریک ہوئے، انھوں نے ایک پرجوش مجمے کی شکل اختیار کی۔ انکے مطابق ’کچھ لوگوں نے ہمیں بتایا کہ وہ بینظیر بھٹو کی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو دیکھنے اور سُننے کے لیے آئے تھے۔
لوگوں میں جوش اور جذبہ تھا اور یہ امر بہت اہمیت کا حامل ہے۔‘ عاصمہ شیرازی کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت وسطیٰ پنجاب کے شہروں ساہیوال اور لاہور میں مارچ کو ملنے والے استقبال سے پوری طرح مطمئن تھی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو اور انکی جماعت کی طرف سے یہ ایک سیاسی مشق کا اچھا آغاز ہے تاہم صوبہ پنجاب میں ان کے لیے جدوجہد بہت طویل ہے جس کے نتائج سامنے آنے میں وقت لگے گا۔ ان کے خیال میں پی پی پی کے لیے یہ بات اچھی ہے کہ کافی لمبے عرصے کے بعد پنجاب میں ایک سیاسی تحریک کا آغاز کیا گیا ہے تاہم اس سے سیاسی اعتبار سے کس حد تک جماعت کی تقدیر بدلے گی اس کا اندازہ جلد ہی ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں لگایا جا سکے گا۔
حجاب کرنا ہے یا بکنی پہننی ہے، یہ ہر عورت کا اپنا فیصلہ ہے
وہ سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے مارچ کی منصوبہ بندی اچھی کی تھی۔ انھوں نے سندھ سے آغاز کیا تھا جہاں ان کی حکومت بھی ہے۔ جنوبی پنجاب میں بھی تاریخی طور پر ان کی پوزیشن وسطی پنجاب کے مقابلے بہتر رہی ہے۔ تاہم مظہر عباس کے خیال میں ’بلاول اور ان کی جماعت کی اعلیٰ قیادت کو پنجاب میں کافی مزید کام کرنے کی ضرورت ہو گی۔‘