صدر ٹرمپ پاکستانی فیلڈ مارشل سے کب تک دوستی نبھائیں گے؟

امریکہ پاکستان سے دوستانہ تعلق تبھی رکھتا ہے جب اس کا کوئی مفاد ہو، جنرل ایوب خان سے لے کر جنرل عاصم منیر تک امریکہ نے جمہوری حکومتوں کی بجائے ہمیشہ فرد واحد سے تعلق بنانے کو ترجیح دی ہے۔ اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ اور پاکستان کی دوستی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے لہذا آج کے حکمرانوں کو اس دوستی پر زیادہ گھمنڈ نہیں کرنا چاہیئے۔
عمران خان کے لیے سیاسی ہمدردیاں رکھنے والے معروف لکھاری اور تجزیہ کار کیپٹن ریٹائرڈ ایاز امیر نے اپنے تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے امریکہ سے دوستی کار ڈھنڈورا بھارت سے زیادہ تحریک انصاف والوں کو جلانے کے لیے پیٹا جاتا ہے۔ انہیں جتایا جاتا ہے کہ دیکھو واشنگٹن سے ہماری کتنی پکی یاری ہو گئی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس یاری سے پاکستان اور اس کے عوام کے تمام مسائل حل ہو گے۔ جب فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان امریکہ کے دورے پر گئے تھے تو مسز جیکولین کینیڈی کے ساتھ انکی گھڑ سواری کی تصویریں ہمیں یاد ہیں۔ جنرل ایوب دوسری بار امریکہ گئے تو صدر لنڈن جانسن کے گالوں کو اپنی انگلیوں میں چھوا۔ جنرل یحییٰ خان نے تو امریکہ اور چین کے درمیان پُل کا کردار ادا کیا۔ افغان جہاد کی وجہ سے پاکستان پر 11 برس حکومت کرنے والے جنرل ضیا الحق کے زمانے میں بھی ایسا ہی لگتا تھا کہ امریکہ اور پاکستان کی یاری کبھی ٹوٹے گی نہیں۔ جب جنرل مشرف کو افغان جہاد کے دوران جنم لینے والے سابقہ مجاہدین اور موجودہ طالبان کو لپیٹنے کا ٹاسک ملا تو بھی واشنگٹن میں ان کی پذیرائی ایسی ہوتی کہ شک پڑنے لگتا شاید یہ دوستی ہمیشہ قائم رہے گی۔
مختصر یہ ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کی دوستی کے ایسے روح پرور مناظر منظر ہم نے بار بار دیکھے ہیں جن پر حکمران اتراتے پھر رہے ہیں۔ کیپٹن ایاز امیر کہتے ہیں کہ یہ اور بات ہے کہ ایوب خان کے برے دن آئے اور اقتدار سے معزول ہونے کے قریب ہوئے تو کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ جنرل یحییٰ خان نے امریکہ اور چین کے مابین پُل کا کردار تو ادا کیا لیکن جب انڈین افواج مشرقی پاکستان پر چڑھ دوڑیں تو صدر نِکسن امریکی ساتویں بیڑے کو حکم ہی دیتے رہے کہ خلیج بنگال کی طرف روانہ ہو۔ بیڑہ ان پانیوں میں آ بھی گیا لیکن یحییٰ خان اپنی فوج کو شکست سے بچا سکے۔ پہلا نام نہاد افغان جہاد اپنے آخری دنوں کو پہنچا تو صدر ضیا الحق کا طیارہ بہاولپور کی فضا میں ایک دھماکے سے ”پَھٹ‘‘ گیا۔ مشرف کا اقتدار زوال کی طرف گامزن ہوا تو انہیں پناہ دبئی میں ملی کیونکہ پاکستان میں آئین شکنی کا مقدمہ چلنے کے بعد ان کا یہاں رہنا محال ہو گیا تھا۔ مطلب یہ کہ پاکستانی جرنیلوں پر بڑی طاقتوں کی مہربانی تب تک رہتی ہے جب تک ان کے مفاد اس طرف اشارہ کریں۔ یعنی یہ دوستی آنی جانی ہے۔
ایاز امیر کہتے ہیں کہ خود میں کچھ نہ ہو تو ایسی دوستیاں کسی کے کام نہیں آتیں۔ قطر نے تو حال ہی میں صدر ٹرمپ کو ایک بڑا جہاز تحفے دیا تھا لیکن جب اسرائیلی بمباروں نے دوحہ پر فضائی حملہ کیا تو وہ تحفہ بھی قطر کے کام نہ آیا۔ سعودی عرب نے صدر ٹرمپ کو خوش کرنے کیلئے کچھ کرنے کی بجائے پاکستان کے ساتھ سٹریٹجک معاہدہ اس لیے کیا یے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس طغیانی کے دور میں امریکی وعدوں پر بھروسا نہیں کیا جا سکتا۔
تاہم پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ابھی تک سکیورٹی دینے کے نام پر چوکیداری سے زیادہ کا سٹیٹس حاصل نہیں کر پائے۔ پاکستان نے ماضی میں بھی امریکی دفاعی معاہدوں کے تحت ڈیوٹی دی تو امریکہ سے پیسے اور ہتھیار ملے۔ اس کے بعد افغانستان میں شورش پیدا ہوئی تو ہمیں پھر سے امریکی مفادات کے تابع امریکی ساز و سامان اور پیسے ملنے لگے۔ ادھر جنرل ضیا سے جنرل مشرف تک سب خوش ہوتے تھے کہ امریکہ نے ہماری اہمیت کو سمجھ لیا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب امریکہ کے مفادات پورے ہو جاتے ہیں تو اس کی نظریں بھی پھِر جاتی ہیں۔ اسکے بعد پاکستان میں رونا پڑ جاتا ہے کہ امریکہ وفادار حمایتی نہیں ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ بین الاقوامی سیاست میں دوستیوں اور دشمنوں کا سارا کھیل مفادات کا ہے۔ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ تائیوان‘ سنگاپور یہ تمام چھوٹے بڑے ممالک امریکہ کے دوست رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ البتہ بڑا فرق یہ رہا کہ ان ملکوں نے پاکستان کی طرح اپنا کردار چوکیداری تک محدود نہیں رکھا۔ ان ممالک نے امریکہ سے دوستی رکھی اور اپنے آپ کو ترقی کی راہ پر بھی ڈالا۔ یہ ممالک ایسے ترقی یافتہ ہوئے کہ بہت سی چیزوں میں امریکہ کو پیچھے چھوڑ گئے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی جرمنی کو امریکی امداد ملی تو وہ ایک معاشی سپرپاور بن گیا۔ چین نے امریکہ سے دوستی کی اور اپنے لیے معاشی ترقی کی راہیں کھولیں۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں چینی طالب علم تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے۔ امریکہ چین کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ بن گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے معاشی اور دیگر شعبوں میں چین آج امریکہ کا مقابلہ کر رہا ہے۔
ایاز امیر کے بقول دوسری طرف پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ انکل سام کے اتنے قریب ہونے کے باوجود بھی ہمارا سٹیٹس کرائے کے سپاہی کا ہی رہا ہے اور اس میں امریکہ کی غلطی نہیں ہے۔ امریکہ نے کوئی بے وفائی نہیں دکھائی۔ ممالک وفا اور جفا کے پیمانوں سے مبرا ہوتے ہیں۔ وہ اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں۔ کمزوری اور نالائقی ہماری تھی کہ امریکی دوستی کا صحیح فائدہ نہ اٹھا سکے اور نہ ہی جہالت کے دائروں سے نکل سکے۔ ہم نعروں میں آگے رہے اور آج تک نعرے ہی لگا رہے ہیں۔
سینیٹر روبینہ عرفان بلوچستان عوامی پارٹی سے مستعفی
پاکستان کی معاشی صورتحال پر ورلڈ بینک کی حالیہ رپورٹ اس کو پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی حالت کیا ہے۔ رپورٹ مستند اعداد و شمار کے ساتھ کہتی ہے کہ پچھلے چار سالوں میں پاکستان میں غربت اور بیروزگاری بڑھی ہے۔ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی کی معاشی حالت اچھی نہیں۔ نچلے طبقہ جو خود کو مڈل کلاس کہتا تھا اس کی بھی چیخیں نکل رہی ہیں۔ قوم کی معاشی حالت نیم مردہ جسم کی سی ہے اور اس جسم سے زیادہ سے زیادہ پیسہ نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سسکتی ہوئی معیشت سے اور کتنا پیسہ نکالا جا سکتا ہے؟ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ پاکستان قرضوں میں دبا ہوا ہے جسکی پیداواری صلاحیت بڑھنے کے بجائے سکڑ رہی ہے۔
چنانچہ ہمیں سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے پر ڈھول بجانے اور جھوٹے سپنے دکھانے کی بجائے حقیقت پسند بننا ہو گا۔ سعودی عرب ہمیں کیا دے گا؟ اپنے دفاع کے عوض ہمیں کچھ پیسے یا تیل دے گا لیکن اصل مسئلہ پاکستانی معیشت کو کھڑا کرنے کا ہے۔ ضیا اور مشرف دور میں بھی امریکی امداد تو آتی رہی لیکن ملکی معیشت اپنے پاؤں پر کھڑی نہ ہو پائی؟ بات تو تب ہے جب ہم پاکستانی معیشت کو سنوارنے کے لیے بنیادی تبدیلیاں لائیں۔ ہم تعلیم پر توجہ دیں، ہم فرسودہ خیالات اور کھوکھلے نعروں سے جان چھڑائیں اور آگے کی طرف دیکھیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا ہم ایسا کرنے کو تیار ہیں؟
