انڈیا اور پاکستان کی نیوکلیئر جنگ میں کتنے ارب لوگ مریں گے؟

امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ اگر ساؤتھ ایشیا کے نیوکلیئر ہمسائیوں بھارت اور پاکستان کے مابین نیوکلئیر جنگ ہوئی تو دنیا پر دو ارب انسان مر جائیں گے۔ پاک بھارت کشیدگی میں حالیہ اضافے کے بعد یہ بحث پھر سے شروع ہو چکی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ اس مرتبہ نیوکلئیر ہتھیاروں کے استعمال کے امکانات پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکے ہیں۔

امریکہ کی رٹگرز یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر امریکہ اور روس کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دنیا میں پانچ ارب اور اگر پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایٹمی جنگ ہوئی تو دو ارب انسان مر جائیں گے۔ رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور انڈیا ایک دوسرے کے خلاف 100 سے 250 کلو ٹن کے ایٹمی ہتھیار استعمال کرتے ہیں تو جنوبی ایشیا میں 12 کروڑ 70 لاکھ لوگ ایٹمی دھماکوں کے نتیجے میں لگنے والی آگ اور تابکاری سے فوری طور پر مر جائیں گے۔ آسمان پر ایٹمی تابکاری کے جو بادل چھائیں گے اس میں تین کروڑ 70 لاکھ ٹن زہریلا مواد موجود ہو گا جس سے پوری دنیا کا ماحول تباہ ہو جائے گا اور دنیا کا درجہ حرارت پانچ درجہ سیلسیئس بڑھ جائے گا۔ اس سے پہلے اتنا درجہ حرارت گذشتہ برفانی دور کے دوران بڑھا تھا۔ نیوکلیئر دھماکوں کے نتیجے میں دنیا میں خوراک کی پیداوار کا نظام مفلوج ہو جائے گا۔ اس کی پیداواری صلاحیت اجناس یا مچھلیوں کی صورت میں 42 فیصد تک گر جائے گی۔ دنیا بھر میں قحط پھیل جائے گا جس سے دو ارب لوگ مر جائیں گے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نیوکلیئر جنگ کے نتیجے میں ایٹمی تابکاری کے بادلوں میں دھماکے سے جلنے والی لکڑی کی راکھ، تیل، تباہ ہونے والی عمارتوں کی دھول اور آگ کی راکھ اس قدر زیادہ ہو گی کہ یہ سورج کی روشنی کو روک دے گی جس سے دنیا میں ایٹمی سردی شروع ہو جائے گی جس سے زرعی پیداوار سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔

پہلگام حملوں کے نتیجے میں پاک بھارت کشیدگی بڑھنے کے بعد پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف اور وزیر اطلاعات عطا تارڑ دونوں نے پاک انڈیا ممکنہ جنگ کے بارے میں خبر دار کر دیا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ کیا یہ تنازع روایتی جنگ سے ہٹ کر ایٹمی جنگ میں بھی بدل سکتا ہے؟ شاید اسی ایک امکان کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک ایک کھلی جنگ سے بچے ہوئے ہیں۔ 1948 کی پہلی پاک انڈیا جنگ کشمیر کی وجہ سے ہوئی تھی اسی لیے کشمیر تک محدود رہی تھی۔ 1965 اور پھر 1971 کی دونوں جنگیں مکمل جنگیں تھیں لیکن تب تک دونوں ملک ایٹمی طاقت نہیں تھے۔

1999کاکارگل تنازع بھی ایک مخصوص علاقے سے بڑھ نہیں سکا تھا اگرچہ دونوں طرف کی فوجوں کو کافی جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن موجودہ تنازع اس حوالے سے مختلف ہے کہ اس میں ایٹمی جنگ کو خارج از امکان قرا ر نہیں دیا جا رہا۔ دونوں ممالک نے خاصی بڑی تعداد میں ایٹمی ہتھیار ذخیرہ کر رکھے ہیں۔ سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کی گذشتہ سال کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا کے پاس 172 اور پاکستان کے پاس 170 نیوکلیئر وار ہیڈز موجود ہیں، جن کی تعداد میں مسلسل اضافہ کئی خطروں کی نشاندہی کرتا ہے۔

حال ہی میں پاکستان کے معروف صحافی نجم سیٹھی اور معروف انڈین صحافی کرن تھاپر کے درمیان ایک مذاکرہ ہوا جس میں کرن تھاپر نے سوال کیا، ’انڈیا نے پاکستان کا پانی بند کردیا ہے کیا یہ عمل ایٹمی جنگ پر منتج ہو سکتا ہے اور پاکستان ایٹمی جنگ کی جو دھمکیاں دے رہا ہے کیا یہ حقیقی ہیں یا کسی کالج بوائے کی بڑھکیں ہیں؟‘ اس کے جواب میں نجم سیٹھی نے جواب دیا کہ اس بار خطرہ زیادہ ہے کیونکہ پاکستان کا ایٹمی ڈاکٹرن انڈیا کے خلاف ہی ڈیزائن کیا گیا ہے اگر ہمارے وجود کو خطرہ ہوا تو پھر ہم اکیلے جنت میں نہیں جائیں گے بلکہ پوری دنیا کو لے کر جائیں گے۔‘

ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ حملے میں پہل کون کرے گا؟ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1988 میں ایک ایٹمی معاہدہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے ایک دوسرے کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔ 1991 میں اس معاہدے میں رد و بدل کرتے ہوئے دونوں ممالک پر ایک دوسرے سے اپنی ایٹمی تنصیبات کے مقامات بھی ظاہر کیے گئے۔ اس کے بعد سے دونوں ممالک تواتر کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے ایٹمی مقامات کی معلومات کا تبادلہ کرتے آئے ہیں۔ انڈیا کا ایٹمی ڈاکٹرن واضح طور پر پہل نہ کرنے پر استوار ہے تاہم اگر اس پر کیمیکل یا بائیولاجیکل ہتھیاروں سے حملہ ہوتا ہے تو پھر وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کر سکتا ہے۔

انڈیا کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ ختم کرنے کے بعد پاکستان نے خبردار کیا ہے کہ اس کے بعد باقی دو طرفہ معاہدوں کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہی جن میں ایٹمی تنصیبات پر حملہ نہ کرنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔ دوسری جانب پاکستان نے ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کے حوالے سے کوئی ایسی پالیسی نہیں بنا رکھی جس کی وجہ سے اس کے پاس کھلا آپشن ہے حتیٰ کہ اگر انڈیا اس کی سرحدوں کے اندر آ کر اس کی فوجوں پر یا اس کی معیشت کو نقصان پہنچاتا ہے، تو بھی وہ ایٹمی ہتھیار استعمال کرسکتا ہے۔

پاکستان کے بارے میں مبصرین یہ کہتے ہیں کہ اس کے پاس محدود پیمانے پر نقصان پہنچانے والے ایٹمی ہتھیار بھی موجود ہیں۔ یعنی اس کی سرحد کے اندر انڈین افواج ہزاروں کی تعداد میں گھستی ہیں تو اس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں جو لمحوں میں مخالف فوجوں کا ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔ یہی وہ خطرناک منظر نامہ ہے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکانات موجود ہیں۔ 2022 میں انڈیا نے غلطی سے براہموس میزائل پاکستان کی جانب فائر کر دیا تھا ایسا کوئی بھی اتفاق ایٹمی میزائلوں کو حرکت دے سکتا ہے۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ امن کی کنجی کس کے پاس ہے؟ اگر ہم ماضی قریب 2019 کے تنازعے کو ذہنوں میں رکھیں تو ایک بات واضح ہو جاتی ہے کہ بالا کوٹ حملے کے اگلے دن پاکستان ایئر فورس کی جوابی کارروائی میں ایک انڈین طیارے کو مار گرانے کے بعد دونوں ملک جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے اور قریب تھا کا کسی بھی وقت طبلِ جنگ بج جائے، تاہم اس وقت یہ جنگ امریکہ اور مغربی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے ٹل گئی تھی۔ تب بھی امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ صدر تھے اور آج بھی وہی صدر ہیں۔ لیکن اس بار انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ دونوں ممالک خود ہی کوئی راستہ نکال لیں گے۔

Back to top button