بحریہ ٹاؤن نے اپنے آپریشنز بند کر د ئیے تو کسی کا کتنا نقصان ہو گا؟

بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض حسین کی جانب سے ملک بھر میں اپنے آپریشنز بند کرنے کی وارننگ کے بعد سوال کیا جا رہا ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو بحریہ ٹاؤن کا اپنا، یہاں کے رہائشیوں اور یہاں سرمایہ کاری کرنے والوں کا کتنا نقصان ہو گا۔
بی بی سی نے اس ضمن میں بحریہ ٹاؤن کی انتظامیہ سے جڑے چند افراد سے بات کی ہے جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر تفصیلات شیئر کی ہیں۔ سامنے آنے والی معلومات کے مطابق بحریہ ٹاؤن کی سوسائٹیز اور دیگر منصوبے پاکستان کے کئی بڑے شہروں بشمول کراچی، اسلام آباد، راولپنڈی، لاہور اور نواب شاہ میں موجود ہیں۔ انتظامیہ کے ذمہ داران کے مطابق ملک بھر میں بحریہ ٹاؤن کی رہائشی سکیموں میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ کے قریب گھر ہیں، پچاس ہزار کے قریب ملازمین اور تین لاکھ کے قریب پلاٹ مالکان ہیں۔انتظامیہ کے ایک عہدیدار کے مطابق اگرچہ اصل تعداد تو فی الحال معلوم نہیں لیکن بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کی مجموعی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔
کراچی میں واقع بحریہ ٹاؤن دیگر تمام شہروں کے بحریہ ٹاؤنز کے مقابلے میں سب سے بڑی ہاؤسنگ سکیم ہے۔ لاہور سے بحریہ ٹاؤن کی ایک عہدیدار نے بتایا کہ بحریہ میں رہائشی اور کمرشل پراپرٹی کے علاوہ بڑے بڑے کاروبار ہیں جو ایک ’منی اکانومی‘ ہے اور ہزاروں لوگوں کا روزگار اس سے منسلک ہے۔
اسلام آباد میں بحریہ انکلیو کے رہائشی عبدالطیف نے بتایا کہ بحریہ اپنی ہاؤسنگ سکیمز میں رہائشیوں کو سکیورٹی، سٹریٹ لائٹس، بجلی، پانی، گیس، صفائی اورمینٹیننس کی سہولیات فراہم کرتا ہے۔ ان کے مطابق بحریہ ٹاؤن نے بلا تعطل بجلی کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اپنے گرڈ سٹیشن قائم رکھے ہیں اور بحریہ واپڈا کے نرخوں سے قدرے زیادہ پر بجلی فروخت کرتا ہے اور خود بل وصول کرتا ہے۔ عبدالطیف کے مطابق بجلی کی فراہمی کی سہولت کی وجہ سے بحریہ دوسری سکیموں پر سبقت کا دعویدار بھی ہے۔
اسکے علاوہ بحریہ ٹاؤن میں جائیداد کی خرید و فروخت کا اپنا نظام ہے۔ مکانات اور پلازوں کی تعمیرات کی منظوری کے دفاتر بھی بحریہ ٹاؤن کے اندر موجود ہیں۔ دلاور خان نے حال ہی میں بحریہ ٹاؤن میں مکان کی تعمیر کا کام شروع کیا ہے اور ابھی وہ ضروری دستاویزات جمع کر رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ انھوں نے رواں ہفتے ہی مکان کی تعمیر کے لیے بحریہ ٹاؤن سے نقشے کی منظوری حاصل کی۔ انھوں نے بتایا کہ گذشتہ تین ماہ سے اُن کے اس سوسائٹی میں چکر لگ رہے ہیں۔ اُن کے مطابق دفاتر میں کام کرنے والا عملہ کم ہوا ہے، مگر ایسا نہیں ہے کہ کام رُکا ہوا ہے۔ ان کے مطابق صرف مکان کی تعمیر کے لیے جو نقشے درکار ہوتے ہیں اس عمل میں کچھ وقت لگتا ہے مگر ٹرانسفر اور خرید فروخت ابھی معمول کے مطابق جاری ہے۔
بحریہ ٹاؤن کے ایک عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ گذشتہ ایک برس میں بحریہ کو اپنے آپریشنز چلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں جس کی وجہ سے روز مرہ کام کرنے والے عملے کی تعداد میں خاطر خواہ کمی کی گئی ہے۔ اس صورتحال کا سکیورٹی اور سہولیات کی فراہمی پر بھی اثر پڑا ہے۔ ملک ریاض نے موجودہ صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے خود ایک ٹوئیٹ میں دعویٰ کیا ہے کہ ’بحریہ ٹاؤن کی رقوم کی روانی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے اور ہم اپنے دسیوں ہزاروں سٹاف کی تنخواہیں ادا کرنے کے قابل نہیں جبکہ حالات لمحہ بہ لمحہ بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’یہ صورتِحال اس ادارے کے بنیادی ڈھانچے کو مفلوج کر چکی ہے جو 50 ہزار محنتی افراد پر مشتمل ہے۔ ہمارے کئی سینیئر ملازمین تاحال لاپتہ ہیں، سروسز معطل ہیں، ترقیاتی منصوبے رُک چکے ہیں اور ہماری کمیونٹیز میں معمول کی دیکھ بھال اور سہولیات کی فراہمی شدید متاثر ہو چکی ہے۔‘
یاد رہے کہ وفاقی وزیر اطلاعات نے اگلے روز کہا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کے معاملات کی نگرانی کرنے والے کرنل ریٹائیرڈ خلیل کو حراست میں لے لیا گیا ہے تاہم انھوں نے کہا تھا کہ یہ کارروائی صرف ان افراد کے خلاف کی جا رہی ہے جو کہ غیرقانونی کاموں میں ملوث ہیں۔ لیکن بحریہ ٹاؤن کے ذرائع کے مطابق انکے عملے کے اراکین کی گرفتاریاں کافی عرصے سے جاری ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ نیب کے اہلکار ہر روز بحریہ ٹاؤن کے ہیڈ آفسز میں جا کر خود وصولیاں کر رہے ہیں۔ اب ان جگہوں پر جو رہائشی بل جمع کروا رہے ہیں یا ٹرانفسر کی فیس ادا کر رہے ہیں وہ سب انتظامیہ کے بجائے حکومت کے پاس جا رہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر صورتحال نہ بدلی تو سرگرمیاں بند ہو جائیں گی، اس کا مطلب یہ ہے کہ سروسز کی فراہمی اگر اور متاثر ہوئی تو بحریہ ٹاؤن اپنے انتظامی آفس بند کر دے گا جو کہ پہلے ہی عملے کی شدید کمی کا شکار ہو چکے ہیں۔
بحریہ ٹاؤن کیخلاف نیب کی کارروائی پر سپریم کورٹ کا اعتراض
بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں کا بھی کہنا ہے کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو بحریہ بھی دوسرے محلوں اور علاقوں کی طرح بن جائے گا جہاں کوڑا اور کچرا لے جانے والے بھی نہیں ہوتے۔ کچھ عرصہ پہلے تک بحریہ میں سرمایہ کاری کو ایک سرمایہ کاروں کی جانب سے ایک محفوظ آپشن قرار دیا جاتا تھا جس کے باعث بہت سے شہریوں نے بحریہ کے منصوبوں میں رہائشی، کمرشل پرآپرٹیز اور کاروباروں میں سرمایہ کاری کی تھی۔ بحریہ ٹاؤن لاہور کے شاہد جاوید نہ صرف یہاں رہائش پذیر ہیں بلکہ یہیں پراپرٹی کے کاروبار سے بھی منسلک ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’حکومت اور ملک ریاض میں معاملات کشیدہ ہونے کے باعث گذشتہ بہت عرصے سے خرید و فروخت کا عمل پہلے ہی متاثر ہے اور اگر انتظامیہ آفسز بند کر دیتی ہے تو مکان اور پلاٹ ٹرانسفر کی سہولت بھی نہیں رہے گی اور یہ سلسلہ اس وقت تک مکمل ٹھپ ہو جائے گا جب تک کسی متبادل کا بندوبست نہیں ہو جاتا۔‘
بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے ایک رہائشی ملک نعیم کے مطابق اب بحریہ ٹاؤن کے پراجیکٹس میں صورتحال کچھ ایسی ہے کہ ہر کوئی اپنی سرمایہ سمیٹ کر باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں پہلے روزانہ درجنوں رہائشی اور کمرشل پراپرٹیز کی ٹرانسفر ہوتی تھی اب گذشتہ ایک سال کے دورانیہ تعداد 15 سے 20 تک رہ گئی ہے۔ اسی طرح کراچی میں پراپرٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنے والے ایک سرمایہ کار شاہد جاوید نے بتایا کہ بحریہ ٹاؤن کراچی میں کمرشل پراپرٹی کی ٹرانسفر کا عمل پہلے ہی رکا ہوا ہے اور نیب کی کاروائیوں کے بعد اب بحریہ ٹاؤن کی سرگرمیاں بند ہو رہی ہیں جس وجہ سے مزید نقصان ہو رہا ہے۔
شاہد جاوید نے حکومت پر زور دیا کہ اگر بحریہ کی انتظامیہ یا ملک ریاض نے کچھ غلط کیا ہے تو اس کا حساب ضرور ہونا چاہیے مگر اس کی قیمت عام پاکستانی شہریوں کو ادا کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ بحریہ ٹاؤن کے رہائشیوں اور اس میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں۔ انھوں نے کہا ’ یہ ادارے ہی تھے جنھوں نے بحریہ ٹاؤن کو تعمیرات کی اجازت دی، این او سی جاری کیے اور نقشے منظور کیے جن کی بنیاد پر عام شہریوں نے سرمایہ کاری کی۔ شاہد جاوید کا کہنا تھا کہ اگر کسی شخص نے کوئی جرم کیا ہے تو اس نے یہ سب کچھ اکیلے تو نہیں کیا ہے۔ لہذا اگر احتساب کرنا ہے تو سب کا کیا جائے۔
