عمران کو اپنی سیاست بچانے کے لیے شہباز شریف کی ضرورت کیوں ہے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار انصار عباسی نے کہا ہے کہ اگر عمران خان کو جیل سے باہر آنا ہے اور اپنی سیاست کو زندہ رکھنا ہے تو انہیں اپنی پارٹی میں ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو شہباز شریف والی مفاہمتی سیاست کرے کیونکہ نواز شریف والی مزاحمتی سیاست کا نتیجہ نواز شریف کی ہی صورت میں ان کے سامنے ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں انصار عباسی کہتے ہیں کہ یوٹیوب پر بیٹھے بعض’’نام نہاد انتہا پسند حمایتیوں‘‘نے عمران خان کا نام بیچ بیچ کر اپنا بینک بیلنس بڑھایا۔ جھوٹ، افواہیں، سنسنی خیزی اور غیر ذمہ دارانہ تبصرے اُن کا ہتھیار بنے۔ ایسے ان پڑھ یوٹیوبرز کا نہ کوئی سیاسی وژن ہے، نہ کوئی اخلاقی معیار، لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ان کی باتوں کو پارٹی پالیسی کا درجہ دے دیا گیا۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا بریگیڈ انہی یوٹیوبرز کا فوج اور ریاست مخالف بیانیہ لے کر چل رہا ہے جس وجہ سے عمران کی رہائی کے امکانات ختم ہو چکے ہیں اور انکی سیاست کو فل سٹاپ لگ چکا ہے۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کو استعمال کر کے ان مٹھی بھر انتہا پسند اور ریاست مخالف یوٹیوبرز نے ایسا ماحول پیدا کیا جو طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تناؤ کو اور بھی بڑھاتا چلا گیا۔ اسی طرح پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی ایسے لیڈرز ہیں جنہوں نے عمران خان کو صحیح اور غلط کا مشورہ دینے کی بجائے اُن کی ہاں میں ہاں ہی ملائی تاکہ اُنکا اپنا سیاسی مفاد محفوظ رہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو عمران خان کو اصل، بروقت اور دیانت دارانہ مشورہ دینے سے ہمیشہ گریز کرتے رہے۔

سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ آج پی ٹی آئی اور عمران خان جس بند گلی میں کھڑے ہیں، وہاں سے نکلنے کیلئے اب جذباتی نعرے، سوشل میڈیا مہم اور مزاحمتی بیانات کافی نہیں۔ عمران خان کو اگر واقعی اپنا اور اپنی جماعت کا سیاسی مستقبل عزیز ہے تو انہیں اعتماد کا دائرہ وسیع کرنا ہوگا۔ انہیں پرویز الٰہی اور شاہ محمود قریشی جیسے تجربہ کار سیاست دانوں کو عملی طور پر اختیار دینا ہو گا۔ وہ اختیار جو انہیں فیصلے کرنے اور اُن پر عمل کروانے کے قابل بنائے۔ اسی طرح عمران کو تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان پر بھی بھروسہ کرنا ہو گا جن کو چیئرمین تو بنا دیا گیا لیکن اختیارات نہیں دیے گئے۔

بیرسٹر گوہر تحریک انصاف کے اُن چند لوگوں میں شامل ہیں جن کا حکومت اور ریاستی اداروں کے اندر بھی ایک احترام موجود ہے اور جو مہذب زبان میں معاملات سلجھانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ صرف اور صرف وہی اسٹیبلشمنٹ سے بات کر سکتے ہیں، حکومت سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے، اور نہ ہی پارٹی کی کور کمیٹی یا سیاسی کمیٹی کسی فیصلے کی مجاز ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے مسائل کیسے حل کرے گی؟ سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کیسے باہر آئیں گے اور ان کی پارٹی کی سیاست کیسے بچے گی؟

چین اور امریکہ کیساتھ چلنے کی پاکستانی پالیسی کتنی کامیاب ہے؟

انصار عباسی کہتے ہیں کہ سیاست میں مشاورت اور ٹیم ورک بنیادی اصول ہوتے ہیں۔ اگر ہر فیصلہ صرف ایک شخص کے دماغ سے نکلے، اور وہی حرفِ آخر ہو، تو یہ سراسر خود پسندی ہے، یہ قیادت نہیں ہے۔ عمران خان کو آج ایک ایسا ساتھی چاہیے جو سیاست کو صرف جلسوں اور نعروں سے نہیں، بلکہ تدبر اور سمجھداری سے آگے بڑھائے۔ انہیں اپنی پارٹی میں ایک’’شہباز شریف‘‘جیسا کردار چاہیے جو اُن کیلئے اُسی طرح اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر کر سکے جیسے میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف اور ن لیگ کیلئے کیے۔ خان کو کسی پر اعتماد کرنا ہو گا جو اُنکے اور پارٹی کے مسائل سلجھا سکے اور اقتدار کے راستے میں رکاوٹوں کو کم کر سکے۔ بانی پی ٹی آئی کو چاہیے کہ وہ ارد گرد موجود خوشامدی عناصر اور ذاتی مفاد رکھنے والوں سے نجات حاصل کریں، جو اُن کے غلط فیصلوں پر بھی تالیاں بجاتے رہتے ہیں۔

انصار عباسی کہتے ہیں کہ اب بھی اگر عمران خان اپنے اندازِ قیادت میں تبدیلی لاتے ہیں، سنجیدہ اور بااعتماد افراد کو آگے لاتے ہیں، اور پارٹی کو ایک ادارہ جاتی ڈھانچے کے تحت چلاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنی سیاست بچا سکتے ہیں بلکہ مستقبل کی ملکی سیاست میں مثبت کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں تو کرتے تو انکے نام پر پیسے بنانے والے اُن کے نام نہاد حمایتی یوٹیوبر، پارٹی سوشل میڈیا اور مفاد پرست سیاسی ساتھی اُنہیں اُس موڑ پر لے جائیں گے جہاں صرف تنہائی، محرومی اور ناکامی کا سایہ ہو گا۔

Back to top button