پاکستان کو جدید امریکی میزائل کی فراہمی پر انڈیا میں کھلبلی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر سے دوستی کے مثبت اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔  امریکہ کی جانب سے پاکستان کو جدید ایمرام (AMRAAM) میزائل فراہم کرنے کے فیصلے نے نہ صرف نئی دہلی کے دفاعی وسفارتی حلقوں میں کھلبلی مچا دی ہے بلکہ مودی سرکار کی بھی چیخیں نکلوا دی ہیں، تاہم اس پیش رفت کو ماہرین واشنگٹن کی "بیلنس آف پاور” پالیسی کی تازہ کڑی قرار دے رہے ہیں ۔ دفاعی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت سے کشیدگی کے دوران امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنے دفاعی رابطوں کو ازسرِنو متحرک کر کے جنوبی ایشیا میں اپنے مفادات کو محفوظ رکھنے کا نیا سٹریٹجک توازن قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔  یہ پیش رفت اس بات کا اشارہ ہے کہ واشنگٹن، چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے مقابلے میں اسلام آباد کو مکمل طور پر نظرانداز کرنے کے بجائے ایک متوازن کردار دینا چاہتا ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو مودی حکومت کے لیے سب سے زیادہ تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔ بھارت کے نزدیک پاکستان کو جدید دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی “اسٹریٹیجک دھوکہ دہی” کے مترادف ہے، جس کے آںے والے دنوں میں دوررس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

خیال رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی دفاعی کمپنی ریتھیون کو اپنے میزائل پروگرام میں ترمیم کے بعد پاکستان سمیت 30 سے زائد ممالک کو جدید فضا سے فضا میں مار کرنے والے میزائل فراہم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس ڈیل کے تحت پاکستان کو فراہم کئے جانے والے میزائل پاکستانی ایف 16 طیاروں میں نصب کیے جائیں گے۔ اس امریکی فیصلے سے پاکستان کو اپنی فضائی صلاحیت نمایاں طور پر بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

دفاعی ماہرین کے مطابق یہ معاہدہ محض اسلحے کی خرید و فروخت نہیں بلکہ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں بتدریج بحالی کا اشارہ بھی ہے۔ دفاعی و میزائل تجزیہ کار سید محمد علی کہتے ہیں ایمریم امریکی فضائیہ اور بحریہ کا صفِ اول کا فضا سے فضا میں مار کرنے والا میزائل ہے اور تمام امریکی لڑاکا طیارے بشمول ایف-16، ایف-18 اور ایف-35 اسی میزائل سے لیس ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اس ڈیل سے قبل پاکستان نے 2006 میں اے آئی ایم-120 میزائل حاصل کئے تھے۔ 2019 میں آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ کے دوران پاکستان فضائیہ نے انڈیا کے پائلٹ ابھینندن کے مگ-21 طیارہ کو بھی اسی میزائل کی مدد سے نشانہ بنایا تھا۔ مئی میں انڈیا کے ساتھ ہونے والی فضائی جھڑپ میں پاکستان نے چینی ساختہ پی ایل 15 میزائل استعمال کیے تھے کیونکہ پی ایل-15 کی رینج ایمریم سے کہیں زیادہ ہے۔‘جس کے بعد امریکی کمپنیوں میں بھی احساس پیدا ہوا ہے کہ انھیں اپنے میزائلوں کی رینج بڑھانے کی ضرورت ہے۔‘ جس کے بعد اب سامنے آنے والے امریکی میزائلز کی نہ صرف رینج بہتر ہے بلکہ اس کا گائیڈنس سسٹم بھی زیادہ موثر ہے۔ اس کے علاوہ اس کی الیکٹرانک جیمنگ کے خلاف صلاحیت بھی بہتر ہوئی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کے ایف-16 طیاروں کی فضا سے فضا میں طیاروں کو مار گرانے کی صلاحیت میں بھی کافی اضافہ ہو جائے گا۔‘ یہ فیصلہ پاکستان کی فضائی برتری کو ازسرِنو مستحکم کرے گا۔

دوسری جانب امریکہ کی جانب سے پاکستان کو فضا سے فضا میں مار کرنے والے جدید امریکی میزائلوں کی فراہمی کے بعد بھارت میں شدید ردِعمل سامنے آیا ہے۔ کانگریس رہنماؤں نے جہاں اس ڈیل کو مودی سرکار کی”سفارتی ناکامی” قرار دیا ہے وہیں بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں نے واشنگٹن کو دھمکی دی ہے کہ وہ پاکستان سے میزائلوں کی ڈیل کر کے حقیقت میں بھارت سے دشمنی مول لے رہا ہے۔ ریٹائرڈ میجر جنرل بخشی کے مطابق، یہ بات عیاں ہے کہ امریکہ اب انڈیا کا دشمن بننے کے قریب ہے۔ وہ صرف یہ میزائل پاکستان کو نہیں بیچ رہا بلکہ سعودی عرب کو بھی فروخت کر رہا ہے۔‘’پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدے کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ کسی لڑائی کی صورت میں سعودی عرب یہ میزائل پاکستان کو دے دے گا۔ ہمیں اب ہوش کے ناخن لینا ہونگے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انڈیا پاکستان کشیدگی کے بعد امریکہ اور پاکستان کے مابین تعلقات مضبوط ہوئے ہیں۔ ایمیریم میزائل کی پاکستان کو فراہمی سے انڈیا کی سکیورٹی کو لاحق شدید تحفظات مزید اضافہ ہوا ہے۔بھارتی دفاعی ماہرین کا اس امریکی فیصلے کو "سکیورٹی دھچکا” قرار دیتے ہوئے کہنا ہے کہ پاکستان سے جدید ترین میزائلز کی ڈیل حقیقت میں بھارت کی سفارتی ناکامی ہے، امریکی پالیسی جنوبی ایشیا میں سٹریٹجک توازن کو بھارت کے خلاف موڑ سکتی ہے۔

تاہم سیاسی ماہرین پاکستان سے طے پانے والے معاہدے کو بھارت کی سفارتی ناکامی قرار دے رہے ہیں تاہم بعض سیاسی مبصرین کے مطابق، واشنگٹن اسلام آباد کے ساتھ تعلقات کو چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کے توازن کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کے ایسے تمام تعلقات کچھ لو، کچھ دو کے تحت انجام پاتے ہیں۔ پاکستان کو دیکھنا ہوگا کہ امریکہ کی طرف سےیہ محض وقتی گرمجوشی ہے یا خارجہ پالیسی میں کوئی مستقل رخ بدل رہا ہے۔یہ معاہدہ جہاں پاکستان کی فضائی قوت کے لیے ایک بڑی پیش رفت ہے، وہیں یہ سوال بھی اٹھاتا ہے کہ کیا امریکہ کا مقصد واقعی پاکستان کو مستحکم بنانا ہے، یا امریکہ اس معاہدے سے صرف چین اور بھارت کے بیچ طاقت کے توازن کو قابو میں رکھنے کا خواہاں ہے؟ مبصرین کے مطابق  پاکستان کے لیے اصل چیلنج یہ ہے کہ وہ اس معاہدے کو امریکی آلہ کار بننے کی بجائے قومی سلامتی کے مفاد کیسے استعمال کرے گا

واضح رہے کہ ایمرام (AIM-120) کو بی وی آر یعنی بصری حد سے ماورا اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت سے لیس جدید ترین میزائل سمجھا جاتا ہے، جو 180 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ریتھیون کے مطابق، یہ واحد ریڈار گائیڈڈ فضا سے فضا میں مار کرنے والامیزائل ہے جو ایف-35 جیسے پانچویں جنریشن طیاروں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان میزائلوں کو امریکی ایئر فورس، بحریہ اور امریکہ کے اتحادیوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔ریتھیون کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق، یہ میزائل 40 ممالک خرید چکے ہیں اور انھیں ایف-15، ایف-16 فیلکن اور جدید ایف-35 سمیت متعدد لڑاکا طیاروں میں استعمال کیا جاتا ہے۔

Back to top button