کیا داعش کا BLA کیخلاف جنگ کا اعلانِ پاکستان کے لیے اچھی خبر ہے؟

بلوچ باغیوں کی جانب سے ریاست پاکستان کے خلاف دہشتگرد حملوں میں تیزی کے دوران داعش خراسان نے اپنے جنگجوؤں کو قتل کرنے والے بلوچ لبریشن آرمی کے عسکریت پسندوں کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا ہے۔

داعش خراساں نے پاکستان میں چلنے والی نسلی اور لسانی قوم پرست تحریکوں کی مذمت کرتے ہوئے ایک کتابچہ جاری کیا جس میں بلوچ اور پختون قوم پرست تحریکوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ داعشنخراسان نے بلوچ یکجہتی کمیٹی اور اسکی رہنما ماہ رنگ بلوچ کے علاوہ پشتون تحفظ موومنٹ اور اس کے رہنما منظور پشتین پر بھی کڑی تنقید کی ہے۔ یہ کتابچہ جاری ہونے کے اگلے دن داعش خراساں نے ایک آڈیو جاری کر کے معاملات مزید کشیدہ کر دیے۔ اس آڈیو میں بلوچ لبریشن آرمی پر بلوچستان کے ضلع مستونگ میں داعش کے جنگجوؤں کو قتل کرنے کے الزام کو جواز بنا کر بلوچ باغیوں کے خلاف باضابطہ اعلانِ جنگ کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ داعش خراساں کی بلوچستان میں اپنے آبائی گروپس، یعنی داعش عراق اور داعش شام کے ابتدائی دنوں سے ہی موجودگی رہی ہے اور یہ ان کی قیادت کی حمایت کرنے والا پہلا بین الاقوامی گروپ تھا۔ اس کے باوجود داعش خراساں نے آن تک کبھی بھی براہ راست قوم پرست گروپس کو چیلنج نہیں کیا۔ ایسے میں یہ خدشات جنم لے رہے ہیں کہ بلوچستان میں تنازعات کی حرکیات کو ایک نئی شکل مل سکتی یے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سال 2016 سے اب تک داعش صوبہ بلوچستان میں 33 دہشتگرد حملوں میں ملوث رہی ہے جن میں 436 افراد ہلاک اور 691 زخمی ہوئے۔ مزار اور گرجا گھر داعش سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں کے بنیادی اہداف میں شامل رہے ہیں۔ اس دوران داعش نے مزاروں اور گرجا گھروں پر 8 خوفناک حملے کیے جس میں درجنوں لوگ مارے گئے۔ اس کے علاوہ معروف سیاسی شخصیات بالخصوص جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن اس کی ہٹ لسٹ میں سر فہرست ہیں۔ سیکیورٹی فورسز اور پولیو ہیلتھ ورکرز بھی اس کے اہداف میں شامل رہے ہیں۔

جے یو آئی کے کئی سینئر رہنماؤں پر داعش خراساں کی جانب سے بلوچستان میں حملے کیے گے جن میں مولانا عبدالغفور حیدری، حافظ حمد اللہ اور مولانا عبدالواسع نمایاں ہیں۔ داعش نے سبی میں تحریک انصاف کے امیدوار کو بھی نشانہ بنایا جبکہ سب سے خطرناک حملہ سابق صدر عارف علوی پر ہونے والا قاتلانہ حملہ تھا، جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ داعش نے قوم پرست رہنماؤں اور ریاست نواز سیاست دانوں کو بھی نہیں بخشا۔ داعش نے بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ کے رہنما سراج رئیسانی کو 2018 کی انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا تھا۔ اسکی ایک اور بڑی واردات بلوچستان کے شہر مستونگ میں چینی شہریوں کا اغوا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ خیبر پختون خوا کی طرح بلوچستان میں بھی داعش کی کارروائیاں مخصوص علاقوں تک ہی محدود ہیں۔ خیبر پختونخوا میں داعش خراسان کی سرگرمیاں زیادہ تر قبائلی ضلع باجوڑ اور پشاور تک محدود ہیں جہاں اس نے بالترتیب 36 اور 19 دہشت گرد حملے کیے ہیں۔ داعش اسلام کے سلفی مکتبہ فکر کی سختی سے پیروی کرتا ہے جو باجوڑ اور افغانستان کے ہمسایہ علاقوں خصوصا کنڑ اور نورستان میں بھی رائج ہے۔ ان افغان علاقوں میں داعش خراساں کی گرفت ہے اور انکی پاکستان کیساتھ سرحدیں بھی ملتی ہیں۔

تاہم بلوچستان میں داعش خراسان کے آپریشنل حالات مختلف ہے۔ اس کی سرگرمیاں بلوچستان کے وسطی مغربی حصے، کوئٹہ کے مضافات، مستونگ، قلات اور خضدار کے کچھ حصوں تک محدود ہیں۔ اسکی کارروائیاں مستونگ سے بولان تک پھیلی ہوئی ہے اور سندھ کی سرحد سے متصل ضلع سبی تک اس کا اثر موجود ہے۔ سندھ کے محکمہ انسدادِ دہشتگردی کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش خراساں نے بلوچستان کی سرحد کے قریب تربیتی کیمپس قائم کیے ہیں جہاں سندھ سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں بالخصوص براہوی قبائل سے تعلق رکھنے والوں کو دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق فروری 2017 میں سیہون شریف کے مزار لال شہباز قلندر پر ہونے والے خودکش دھماکے میں بھی داعش خراسان ملوث تھی۔

مستونگ اور کوئٹہ کے مضافات داعش خراساں کے بڑے مرکز کے طور پر کام کرتے ہیں جہاں اس نے بالترتیب 12 اور 10 حملے کیے ہیں۔ داعش بلوچستان کے شہروں قلات، بولان اور خضدار میں بھی موجود ہے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر بلوچ کمیونٹیز آباد ہیں جن میں سے اکثر مذہبی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جے یو آئی کو ان علاقوں میں مضبوط سیاسی حمایت حاصل ہے۔ دفاعی تجزیہ کار اس مذہبی جھکاؤ کو پاکستان میں انضمام سے پہلے ریاست قلات کی دیوبندی مدارس کی سرپرستی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔

سیکیورٹی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں مختلف اسلامی شدت پسند تحریکوں بشمول تحریک لبیک پاکستان اور شیعہ تنظیموں کے درمیان مسابقت بڑھ رہی ہے۔ ان کا کہنا یے کہ شیعہ مدارس نے گزشتہ 15 سالوں میں خطے میں خود کو وسعت دی ہے، بالخصوص لشکر جھنگوی نے جو بعد میں داعش خراساں میں ضم ہو گئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ٹی ایل پی نے بھی اس خطے میں اپنے قدم جما لیے ہیں۔ اس نے بنیادی طور پر کراچی سے، کوئٹہ-کراچی ہائی وے کے ساتھ ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔ کراچی میں رہنے والے اس علاقے کے کچھ بلوچ باشندوں نے اس کا اثر و رسوخ بڑھانے میں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اسکے باوجود جے یو آئی اد خطے میں ایک غالب سیاسی قوت ہے جس کے پاس انتخابی طاقت بھی موجود ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ داعش خراساں خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جے یو آئی کو نشانہ کیوں بناتی ہے، اسکا جواب یہ ہے کہ داعش جے یو آئی کو پاکستان میں طالبان کے قریبی اتحادی کے طور پر دیکھتی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے برسر اقتدار آنے سے بھی بہت پہلے سے افغان طالبان اور داعش خراساں کے درمیان مسلح جھڑپیں جاری ہیں۔ دونوں کے درمیان بنیادی اختلاف ریاستی ڈھانچے اور خلافت کے تصور کا ہے۔ داعش خراساں کا ماننا ہے کہ طالبان ایک قوم پرست تحریک ہے جو مغرب کی اتحادی ہے۔ داعش کی نظر میں پاکستان، دیگر مسلم ریاستوں اور طالبان اشرافیہ میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں ہے۔ داعش خراساں کے نزدیک قوم پرستی سراسر ایک غیراسلامی تصور یے، چاہے وہ بلوچ ہو یا پشتون۔ اسی سوچ کی وجہ سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرست تحریکوں کے لیے داعش کی جانب سے خطرات بڑھ گے ہیں۔ ایسے میں اسلام پسند عسکریت پسندوں اور بلوچ قوم پرست باغیوں کے درمیان مسلح جنگ کا امکان مسترد نہیں کیا جا سکتا۔

اگرچہ بی ایل اے نے اپنی آپریشنل کارروائیوں کو بلوچستان کے بیشتر علاقوں تک وسعت دی ہے لیکن داعش بنیادی طور پر مستونگ اور اسکے اردگرد کے علاقوں تک ہیک محدود ہے۔ اس سب کے باوجود داعش کی وہاں موجودگی بی ایل اے کے لیے خلفشار کا باعث بن سکتی ہے۔ ایسے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ بلوچ قوم پرستوں اور داعش خراسان کے مابین چپقلش کی یہ صورتحال سیکیورٹی اداروں کے لیے اچھی خبر ہے یا نہیں۔ اگرچہ کچھ لوگ اسے ایک تنازع کے طور پر دیکھتے ہیں جو بیک وقت دونوں مخالفین کو کمزور کرسکتا ہے لیکن حقیقت اس سے زیادہ پیچیدہ ہوسکتی ہے۔

Back to top button