کیا کشمیر چھن جانے کے بعد ہمارا 5 فروری کو یوم کشمیر منانا جائز ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید نے کہا ہے کہ میں 5 فروری کو پاکستان میں سرکاری سطح پر یوم کشمیر منانے کے فیصلے سے اس لیے اتفاق نہیں کرتا کہ بھارت تو کشمیر پہلے ہی ہڑپ کر چکا ہے اور ہمارا کردار صرف سینہ کو بھی تک محدود ہو چکا ہے۔
اپنی تازہ تحریر میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ 5 فروری کا دن میں غصے میں بھنائے ہوئے گزار دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں اس روز سرکاری چھٹی ہوتی ہے۔ سرکار کی جانب سے سرکاری ملازمین کو اس روز چھٹی دینے کا مقصد در حقیقت انہیں اس امر کے لئے اْکسانا اور سہولت پہنچانا ہے کہ وہ بھارت کی جانب سے کشمیر پر قبضے کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں اور جلوسوں میں حصہ لیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کشمیر کے نام پر ایک روز کی چھٹی حاصل کرنے والوں میں سے کتنے فی صد افراد واقعتاً اپنے 5 فروری کے دن کو اس مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں؟
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ آج سے 15 برس قبل میں جس ٹی وی کے لئے کام کرتا تھا وہاں مجھے اپنے شو کے لئے موضوعات طے کرنے کی سہولت کشادہ دلی سے فراہم کی جاتی تھی۔ میں عموماََ ان موضوعات کو ترجیح دیتا جنہیں مین سٹریم میڈیا عموماََ نظرانداز کئے رکھتا تھا۔ ایک روز پانچ فروری آئی تو میں نے اپنے پروگرام کے پروڈیوسر سے فرمائش کی کہ کیمرہ اور مائیک لے کر اسلام آباد کے بازاروں میں چلا جائے اور وہاں راہگیروں سے پوچھا جائے کہ اس دن سرکاری چھٹی کیوں ہوتی ہے۔ یقین مانیں کہ اس عمل کے دوران ایک فی صد پاکستانی بھی اس سوال کا صحیح جواب نہ دے پائے۔ چنانطہ میں نے اپنا سرپیٹ لیا اور بعدازاں پروگرام کے دوران بھی انتہائی دْکھی دل کے ساتھ اس کا ذکر کیا۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ آج پندرہ برس گزرجانے کے بعد بھی میں آپ سے ہاتھ باندھ کر التجا کروں گا کہ لمبا سانس لے کر آنکھیں بند کریں اور سوچیں کہ 5 فروری کے روز سرکاری چھٹی کی بھارت کے مقبوضہ کشمیرسے کیا نسبت ہے اور اس روز سرکاری چھٹی کا فیصلہ کس حکومت کے دوران ہوا تھا۔ برا نہ مانیے گا۔ میں احمقانہ ڈھٹائی سے یہ توقع باندھ رہا ہوں کہ آپ میں سے اکثر میرے سوال کا درست جواب نہیں دے پائیں گے۔ آپ کی لاعلمی کا ذمہ دار میں حکومتوں کے علاوہ کشمیر کاز کے خودساختہ ’’مامے‘‘ بنے ان تمام افراد کے کاندھوں پر ڈالوں گا جو کشمیر کی آزادی کے نام پر کئی برسوں سے اپنی دوکانیں چلارہے ہیں۔ 2025ء میں 5 فروری کا دن مجھے اس لئے بھی بہت تکلیف پہنچارہا ہے کہ میں نے اگست 2019ء کا آغاز ہوتے ہی لکھ کر دہائی مچانا شروع کردی تھی کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں کچھ بڑا کرنے والا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے ایسے وسوسوں کا آغاز میرے دل میں جولائی 2019ء سے شروع ہوا تھا۔ اس مہینے ان دنوں کے وزیر اعظم عمران خان امریکہ تشریف لے گئے تھے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ ان کے ہمراہ گئے اور ان کے ساتھ بنوائی تصویروں میں اپنی آنکھوں میں آئی چمک سے دنیا کو یہ پیغام دیتے رہے کہ جیسے دورہ امریکہ کے ذریعے وہ اور سابق وزیر اعظم کوئی ناقابل تسخیر قلعہ فتح کررہے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران خان جب وائٹ ہاؤس پہنچے تو کیمرہ کے روبرو ’’استقبالی کلمات‘‘ ادا کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے ’’انکشاف‘‘ کیا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے جاپان کے شہر اوساکا میں ان کے ساتھ تنہائی میں ہوئی ایک ملاقات میں درخواست کی کہ امریکی صدر مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ’’ثالثی‘‘ کا کردار ادا کرے۔ سابق وزیر اعظم ان کی ’’خبر‘‘ سن کر ہکا بکا رہ گئے۔ خوشی سے پھولتے نظر آئے۔ وطن لوٹتے ہی خان صاحب نے یہ اعلان بھی کیا کہ ٹرمپ کی جانب سے کشمیر پر ثالثی کا سن کر وہ ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے ورلڈ کپ جیتنے کے بعد محسوس کیا تھا۔ نصرت خے بقول 1984ء سے 2010ء تک بھارت میں دلی کے علاوہ کئی شہروں میں جاتا رہا ہوں۔ مقبوضہ کشمیر بھی تین مرتبہ جانے کا اتفاق ہوا۔ دلی میں طویل قیام کے جو وقفے آئے تھے ان کے دوران مجھے اس امر کو تسلیم کرنا پڑا کہ چاہے کچھ بھی ہوجائے بھارت کشمیر کے حوالے سے کسی تیسرے ملک سے ’’ثالثی‘‘ کا طلب گار نہیں ہے۔ اٹل بہاری واجپائی بھارت کا واحد وزیر اعظم تھا جو کشمیر کے مسئلے کا کوئی حل دریافت کرنے میں سنجیدہ تھا۔ نرسمہا رائو سے لے کر من موہن سنگھ تک جو کانگریسی وزرائے اعظم تھے وہ پاک-بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لئے کشمیر کے حوالے سے کچھ ’’رعایتیں‘‘ دینے کو آمادہ تھے مگر اس کے دائمی حل کی تلاش کو بے چین نہیں تھے۔
نصرت جاوید کے مطابق اپنے تجربے کو نگاہ میں رکھتے ہوئے مجھے امید تھی کہ بھارتی حکومت ٹرمپ کی جانب سے سنائی ’’ثالثی‘‘ والی داستان کی سختی سے تردید کرے گی۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ بھارتی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے دعویٰ کی تردید کے لئے وہاں کے راجیہ سبھا یعنی سینٹ میں ایک مختصر سا ناپ تول کر سفارتی جواب دیا اور خاموشی اختیار کرلی۔ بھارتی حکومت کی جانب سے اپنائی خاموشی کے دوران مجھے مقبوضہ کشمیر سے کئی افراد واٹس ایپ پیغامات کے ذریعے خبردار کرتے رہے کہ سری نگر کے ہوائی اڈے پر بھارت سے آنے والی پروازوں کا رش بڑھ گیا۔ جو پروازیں آرہی ہیں وہ نظر بظاہر بھارتی فوجیوں کو مقبوضہ کشمیر بھیجنے کے لئے خصوصی پروازیں دکھ رہی ہیں۔
نصرت کے بقول جولائی سے اگست تک کے میرے کالم گواہی دیں گے کہ مجھے جو اطلاعات آرہی تھیں میں ان کے بارے میں دہائی مچاتا رہا۔ اس کے علاوہ کچھ کرنا میرے بس ہی میں نہیں تھا۔ عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی مجھے ٹی وی سکرینوں کے لئے بین کردیا تھا۔ قمر جاوید باجوہ صحافیوں کی جن محفلوں میں کئی گھنٹے کھل کر بولے ہی چلے جارہے تھے وہاں تک رسائی بھی ممکن نہیں تھی۔
میں آج بھی اصرار کرتا ہوں کہ ٹرمپ نے عمران خان کو کشمیر کے بارے میں ’’ثالثی‘‘ کی جو داستان کیمروں کے روبرو سنائی اس کا مقصد ہمیں بے وقوف بناکر بغیر کچھ دئے حکومت پاکستان کو قائل کرناتھا کہ ہم طالبان کو دوحہ مذاکرات کی میز پر بٹھانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہم بخوشی بے وقوف بن گئے۔ مقبوضہ کشمیر اب بھارت نے باقاعدہ ہڑپ کرلیا ہے اور جنہیں مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا تھا اقتدار میں آکر امریکہ کا جدید اسلحہ ہمارے ہاں تخریب کاری کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ 5 فروری کے دن میں سینہ کوبی کے علاوہ کچھ کرنے کو آمادہ نہیں۔