کیا بلوچستان کے مسئلے کی بنیادی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی غلط پالیسی ہے؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ بلوچستان میں دہشتگردی کی بنیادی وجہ ریاستی اداریوں اداروں کی غلط پالسیاں ہیں کیونکہ جب آپ قوم پرست جماعتوں اور لیڈرز کو دیوار سے لگا دیتے ہیں تو وہ عسکری جدوجہد کا راستہ اپنا لیتے ہیں۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ ہم نے کس کس کو ’سیاستدان کو ’غدار‘‘ نہیں قرار دیا۔ فہرست نکال لیں اور تجزیہ کریں کہ ’’غدار‘‘ سیاستدان تھے یا انہیں ملک دشمن قرار دے کر پابندیاں لگانے والے، یہ سلسلہ اتنا بڑھ گیا کہ بالاخر پاکستان ہی دولخت ہو گیا۔ یاد رکھیں جب قومی سیاست اور رہنمائوں پر پابندی لگتی ہے تو وہ قوم پرست سیاست کی بنیاد بنتی ہے اور جب آپ قوم پرست جماعتوں اور لیڈرز کو دیوار سے لگا دیتے ہیں تو وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی طرف چلے جاتے ہیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی عدم استحکام کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بات سابق مشرقی پاکستان کی ہو، کے پی، سندھ یا بلوچستان کی ہدف تنقید پنجاب کی سیاسی و غیر سیاسی اشرافیہ رہی ہے اور آج بھی ہے۔ ملک تو 76 سال سے نازک موڑ سے گزر رہا ہے مگر اس وقت جو صورتحال خیبر پختو نخوا اور بلوچستان میں ہے وہ سنگین تر ہوتی جا رہی ہے اور دونوں صوبوں میں دہشت گردی کے اہداف بھی مختلف ہیں ایک طرف علیحدگی پسندی کی تحریک ہے تو دوسری طرف پاکستان میں اپنی مرضی کا نظام لانے کی خواہش اور کوشش۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ آجکل معروف پشتون قوم پرست رہنما خان عبدالولی خان کی ایک 40 سال پرانی تقریر کی ویڈیو وائرل ہو رہی ہے جو افغانستان کی پہلی جنگ کے تناظر میں ہے۔ ابیوں نے کہا تھا کہ ’’آج جو ہتھیار افغانستان کیلئے لایا جا رہے ہیں وہ وہاں نہیں بلکہ پاکستان میں استعمال ہوں گے‘‘۔ آج جن حالات کا ہمیں سامنا ہے انکے حوالے سے ولی خان اور میر غوث بخش بزنجو جیسے معتبر رہنماؤں نے 80ء کی دہائی میں ہی خبردار کر دیا تھا مگر ’’ریاست‘‘ کی نظر میں یہ لوگ تب غیر محبِ وطن اور غدار تھے۔ یہ سلسلہ اُن پالیسیوں کا تسلسل تھا جو قیام پاکستان کے بعد ایک ’نظریاتی سراب‘ کے نام پر بنائی گئیں جن کی ابتدا بنگال مسلم لیگ اور مغربی پاکستان مسلم لیگ کی تقسیم سے ہوئی۔ غالباً اُس وقت طے کر لیا گیا تھا کہ ’’اکثریت‘‘ کو قبول نہیں کیا جا سکتا، چاہے تمام انتخابات میں وہ جیت ہی جائے۔ یہ مینڈیٹ کو نہ ماننے کی ابتدا تھی۔
وہ چاہے بائیں بازو کا اتحاد جگتو فرنٹ ہو، عوامی لیگ، پی پی پی، ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ن) ہو یا تحریک انصاف۔
مظہر عباس یاد دلاتے ہیں کہ 1954 کے بعد 1958ء میں الیکشن کروانے کا فیصلہ ہو چکا تھا مگر مارشل لا لگا کر سیاسی عمل کو روک دیا گیا، دو ہزار سے زائد سیاستدانوں کو نا اہل قرار دیدیا گیا۔ بائیں بازو کی جماعت پر بھی پابندی لگا دی۔ اعلیٰ عدلیہ کو سہولت کار اور میڈیا کو قابو کر لیا گیا۔ اس سب کے نتائج 1971ء میں بنگلہ دیش کی صورت میں سامنے آئے مگر ہمارے ’’نصاب‘‘ میں آمرانہ ادوار کے فوائد ہی بیان کیے جاتے ہیں۔ ہماری ’’سیاسی اشرافیہ‘‘ دراصل غیر سیاسی نظام کی پیداوار یے، جس کی ابتدا نام نہاد بنیادی جمہوریت کے نظام اور پھر ایوب خان کے بعد جنرل ضیاء کے غیر جماعتی نظام کی بحالی سے ہوئی، ان جماعتوں اور رہنمائوں کا جمہوری رویہ ہو ہی نہیں سکتا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ پاکستان میں پہلی بار آئین اتفاق رائے سے 1973ء میں بنا مگر اس سے ایک سال پہلے 1972ء میں حکومت کیخلاف ’’بغاوت‘‘ کی کوشش کی گئی جو ناکام ہوئی اور بہت سے فوجی اور ایئر فورس کے افسران کو سزائیں ہوئیں۔ اسی دوران بلوچ رہنما عطا ءاللہ مینگل کے بیٹے اسد مینگل کی گمشدگی ہے بعد ہلاکت نے ایسی صورتحال پیدا کر دی کہ ’’لاپتہ افراد‘‘ کا مسئلہ ایک بیانیہ بن گیا۔ بلوچستان فوجی آپریشن، صوبائی اسمبلی کو برطرف کرنا، نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگانا اور پھر حیدرآباد ٹرائل کا قیام اور مقبول رہنمائوں کو سزائیں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سنگین سیاسی غلطی تھی، چاہے پس پردہ دبائو کوئی بھی ہو۔
1977ء میں پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دوران جب مذاکرات کا عمل شروع ہوا تو پہلی بار جنرل ضیاء الحق کا کردار سامنے آنے لگا۔ طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بھٹو صاحب کو کہا گیا کہ ’’نیپ‘‘ سے پابندی اُٹھانے اور حیدرآباد ٹرائل ختم کرنے کا مطالبہ تسلیم نہیں کرنا، جبکہ دوسری طرف پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کو پیغام دیا گیا کہ آپ نے ٹرائل ختم کرنے کے مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹنا۔ سپریم کورٹ میں حنا جیلانی کیس میں مارشل لا کو خلاف آئین کہنے کے باوجود 1977 کے مارشل لا کو ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت جائز قرار دیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی ایک آمر کے دور میں ہماری سیاسی تاریخ کا بدترین واقعہ ہے۔ اگر اکتوبر 1977ء میں الیکشن کرا کے فوج بیرکوں میں واپس چلی جاتی تو آج کا پاکستان عین ممکن ہے مختلف ہوتا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ ایرانی انقلاب اور پھر افغانستان میں روس کے آنے سے جو جنگ شروع ہوئی ہم اُسکے حصہ دار بن گئے۔ ’’جہاد افغانستان‘‘ کے نام پرجنرل ضیاء الحق اور بعد میں جنرل حمید گل کا لگایا ہوا پودا آ ج تناور درخت بن چکا ہے جس کو آج تک ہم جڑ سے نکال کر پھینک نہ سکے اب یہ پودا درخت کی صورت میں ریاست کو کمزور کر رہا ہے اور اُسے سیاسی و مذہبی جماعتوں اور گروپس کی خاموش حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ سیاسی جماعتیں ’’پینگ، پونگ‘‘ کھیلتی رہیں اور اصل میچ کہیں اور ہو رہا تھا اور پھر ایک اور منتخب حکومت کو 12 اکتوبر کو گھر بھیج دیا گیا اور ایک بار پھر منتخب وزیر اعظم نواز شریف کو غدار قرار دیکر عمر قید کی سزا دے دی گئی۔
جنرل پرویز مشرف کی سب سے بڑی غلطی آئین توڑنا تو تھا ہی لیکن جس طرح بلوچستان کو ہینڈل کیا گیا اُس نے صوبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا، اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ تھا کہ نواب اکبر بگٹی کی شہادت کے بعد مشرف نے اُس ایکشن کا دفاع کیا۔ یہ دفاع ہمیں آج اس موڑ پر لے آیا ہے کہ واپسی کا راستہ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔ مشرف کی حکومت کا خاتمہ ہوا مگر اُس سے پہلے ایک اور منتخب وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت۔ بی بی اُس بیانیےکی بھینٹ چڑھ گئیں جو نہ جمہوری اقدار پر یقین رکھتا ہے نہ ہی عورت کی حکمرانی پر
2013ء میں سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ایک انتہائی سنجیدہ اور مثبت کوشش کی بلوچستان کے مسئلہ کے حل کیلئے۔ صوبے میں اُن کی جماعت کی اکثریت تھی مگر انہوں نے اپنے اتحادی اور نیشنل پارٹی کے بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر عبدالمالک کو حکومت بنانے کا کہا۔ لیکن بھائی لوگوں کی جانب سے یہ حل بھی قبول نہیں کیا گیا۔ 2016 میں میاں صاحب نا اہل قرار پائے، 2018 میں مسلم لیگ کو حکومت بنانے نہیں دی گئی جس کی ابتدا بلوچستان میں مسلم لیگ کے بطن سے ہی بلوچستان عوامی پارٹی کی تشکیل سے ہوئی۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ چیئرمین سینٹ میں حاصل بزنجو کو ہرانے کیلئے ’’فیض‘‘ فارمولہ لایا گیا۔ اس سب کا نتیجہ اج ہمارے سامنے ہے اور بلوچستان دہشت گردی کی اگ میں جل رہا ہے۔