عمران پاکستان کی بجائے دہشت گردوں کے ساتھ کیوں کھڑے ہو گئے؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کا نصرت جاوید نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بلوچستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کے مسئلے پر بلائی گے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بائیکاٹ نے اس حکومتی بیانیے کو درست ثابت کر دیا ہے کہ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان اور اسکے عوام کی بجائے دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی ہے۔
اپنی تازہ سیاسی تجزیے میں نصرت جاوید کہتے ہیں کہ اپریل 2022ء میں اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد بانی تحریک انصاف روزانہ کی بنیاد پر شہر شہر گئے۔ امریکہ سے آئے ایک سائفر کو انہوں نے اپنی حکومت کے گرنے کی اصل وجہ بتایا۔ امریکہ کے حوالے سے ’’ہم کوئی غلام ہیں‘‘ کا سوال اٹھاتے ہوئے وہ ریاست پاکستان کے کلیدی اداروں میں موجود ’’میر جعفروں‘‘ کا تواتر سے ذکر کرتے۔ ان کی جگہ اقتدار میں آئے شہباز شریف کی حکومت اندازہ ہی نہ لگا سکی کہ اپنے بیانیے کو وہ کیسے نوجوانوں کی روح تڑپانے اور قلب گرمانے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔
نصرت جاوید کہتے ہیں کہ’’ ملک کو دیوالیہ سے بچانے‘‘ میں مصروف سیاستدانوں کے برعکس ’’میر جعفر‘‘ کی تہمت نظرانداز کرتے ہوئے قمر جاوید باجوہ ان دنوں کے صدر علوی کے ذریعے عمران خان کا جی رام کرکے اپنے عہدے میں مزید توسیع کی کوششیں کرتے رہے۔ تاہم ایسا نہیں ہو پایا چونکہ عمران کو اقتدار میں لانے والے باجوہ اور خان دونوں اس نہج پر پہنچ چکے تھے جہاں دونوں ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں تھے۔ اقتدار سے محروم ہونے کے بعد عمران خان نے نوجوانوں کی موثر تعداد کو جس انداز میں متحرک کیا اس کا نتیجہ 8 فروری 2024ء کے دن دھماکے کی صورت برآمد ہوا۔ لیکن 9 فروری کی صبح ہونے تک تحریک انصاف یہ طے نہ کر پائی کہ اس کے برپا کئے ’’انقلاب‘‘ کا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ اصولی طورپر اگر وہ واقعتاً اس امر پر قائل تھی کہ اس کا ’’مینڈیٹ‘‘ چرا لیا گیا ہے تو نتائج کی پرواہ کئے بغیر اس کی حمایت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لئے منتخب ہوئے اراکین کو ایوانوں میں بیٹھنے سے انکار کردینا چاہیے تھا۔ یہ کرنے کے بجائے انہوں نے خیبرپختونخواہ میں حکومت بنانے کو ترجیح دی لیکن وفاق میں واحد اکثریتی حکومت کی حیثیت میں ابھرنے کے باوجود حکومت سازی کی طرف قدم اٹھانے سے انکار کردیا۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ تب جو پالیسی اپنائی گئی اسنے تحریک انصاف کے ان نوجوانوں کو اپنی اس قیادت سے قطعاََ ناراض کر دیا جو اب خیبرپختونخواہ میں حکومت بنائے بیٹھی ہے یا منتخب ایوانوں کا رکن ہونے کی وجہ سے ’’مزے کی زندگی‘‘ گزارتی نظر آرہی ہے۔ غصے سے بپھرے یہ نوجوان سنجیدگی سے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران کے نام پر ووٹ لینے کے بعد تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی اورسینٹ اپنے قائد کی رہائی کے لئے فکر مند نہیں۔ انکا خیال ہے کے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما کسی نہ کسی حوالے سے ’’فوج‘‘ کے ساتھ مل چکے ہیں اور عمران سے غداری کے مرتکب ہورہے ہیں۔
نصرت جاوید کے مطابق اب صورت حال یہ ہے کہ جیل سے باہر موجود تحریک انصاف کے رہنماؤں سے مایوس ہونے والے نوجوانوں کی اکثریت سوشل میڈیا پر چھائی ہوئی ہے۔ ان کی اسی مہارت کے سبب 8 فروری ہوا تھا۔ مگر 8 فروری کو لوگوں کو اس امر پر اکسانا ضروری تھا کہ وہ گھروں سے نکلیں اور فلاں پولنگ اسٹیشن پر جاکر فلاں انتخابی نشان پر مہر لگادیں جو تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار کا نشان ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے پھیلایا یہ پیغام ہر اعتبارسے حیران کن تھا۔
نصرت جاوید کہتے ییں کہ ’’تاریخ‘‘ بنانے کے باوجود 8 فروری کے دن لوگوں کو محض گھروں سے نکل کر خاموشی سے عمران خان کے تائید یافتہ امیدوار کی حمایت میں ووٹ ڈالنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ اس کے ذریعے ریاست کے طاقتور ترین ادارے کو للکارنے کا ذکر نہ تھا۔ لیکن مارچ 2025 میں حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ ملک اس وقت دہشت گردی کی شدید ترین لہر کا سامنا کررہا ہے، جس سے نبرد آزما ہونے کی تدابیر سوچنے کے لئے حکومت نے نہایت مہارت سے ’’آل پارٹی کانفرنس‘‘ بلانے کے بجائے ایک ’’پارلیمانی کمیٹی‘‘ کو دعوت دی۔
اس کمیٹی کے قیام کے لئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود سب جماعتوں کو دعوت دی گئی کہ وہ اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں۔ منگل کے روز وہ نمائندے اعلیٰ ترین فوجی قیادت سے ملک میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی وجوہات جاننے کے لئے پارلیمان کی عمارت میں ہوئے ایک ’’اِن کیمرہ‘‘ اجلاس میں شریک ہوں۔ ’’پارلیمانی کمیٹی‘‘ کا ذکر سنتے ہی سوشل میڈیا پر چھائے تحریک انصاف کے نوجوانوں نے اس ’’بیانیے‘‘ کو تیزی سے پھیلانا شروع کردیا کہ اس کمیٹی کا قیام درحقیقت دہشت گردی سے نبرآزما ہونے کی خاطر بلائی ایسی ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ سے گریز ہے جو پشاور میں اے پی ایس سانحے کے بعد ہوئی تھی۔
یاد رہے کہ نواز حکومت کے دوران ہوئی اس کانفرنس میں عمران اپنا دھرنا چھوڑ کر شریک ہوئے تھے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں کو یقین تھا کہ اب کے بار ہوئی ’’آل پارٹیز کانفرنس‘‘ عمران خان کی شرکت کے بغیر کار بے سود نظر آئے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور عمران کی ہدایت پر تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت سے انکار کر دیا۔ لیکن انتہائی طیش کے عالم میں یہ فیصلہ کرنے والے عمران خان اس حقیقت کونظرانداز کر گئےکہ جعفر ایکسپریس کے اغواء اور مسافروں کے قتل عام کے بعد حکومتی ترجمان نہایت سوچ بچار کے بعد تیار کی گئی حکمت عملی کے ذریعے یہ تاثر پھیلا رہے تھے کہ تحریک انصاف دہشت گردی کی اس ہولناک واردات کے باوجود دہشت گردوں کے ساتھ کھڑی یے۔ تحریک انصاف کی پارلیمانی قیادت نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اپنی جماعت پر لگنے والے اس الزام کی تصدیق کر دی ہے۔