اسرائیل نواز شمع کو  شہباز کے وفد میں کس نے شامل کروایا؟

ماضی میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرنے والی متنازعہ خاتون شمع جونیجو کے حوالے سے انکشاف ہوا ہے کہ انہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے یچ پاکستانی حکام کی سفارش پر جاری کیا گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان نے وضاحت کی ہے کہ ماضی میں اسرائیل نواز بیانات دینے والی شمع جونیجو کو جنرل اسمبلی کے اجلاس کے لیے پاکستانی وفد میں شامل ہونے کے لیے آفیشل بیج اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی درخواست پر دیا گیا تھا۔ یعنی شمع کی وزیراعظم شہباز شریف کے سرکاری وفد میں شمولیت کسی سازش کا حصہ نہیں تھی بلکہ ایسا پاکستانی حکومت کی مرضی سے ہوا۔

بی بی سی کی جانب سے بذریعہ ای میل پوچھے گئے سوال کے جواب پر اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان فرحان حق نے کہا یے کہ ’شمع جونیجو نے پاکستان کے مستقل مشن کی درخواست پر اقوام متحدہ سے وفد کا آفیشل بیج وصول کیا تھا۔ انکا کہنا تھا کہ جہاں تک سلامتی کونسل کے چیمبر میں سیٹنگ ارینجمنٹ کی بات ہے تو یہ سوال پاکستانی حکام کے لیے ہے کیونکہ ہم اس حوالے سے کوئی کردار ادا نہیں کرتے۔‘

یاد رہے کہ جب 24 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف مصنوعی ذہانت اور عالمی سلامتی کے خطرات پر اظہار خیال کر رہے تھے تو ان کی پچھلی نشست پر ایک ایسی شخصیت بھی موجود تھیں جو نہ تو اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی رکن ہیں اور نہ ہی کوئی منتخب عہدیدار۔ اقوام متحدہ کے اجلاسوں میں شمع جونیجو نامی خاتون کی موجودگی سے اسلام آباد میں ایک سفارتی تنازع پیدا ہوا ہے اور معمہ تاحال حل نہیں ہو سکا کہ وہ کیسے اقوام متحدہ کے 80ویں جنرل اسمبلی اجلاس کے لیے پاکستانی وفد میں شامل ہوئیں۔

سوشل میڈیا پر جہاں بعض حلقے ان کا دفاع کر رہے ہیں وہیں کچھ لوگ یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ایک ایسی شخصیت کو اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا حصہ کیوں بنایا گیا جو ماضی میں پاکستان سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کر چکی ہے۔ شمع جونیجو کے بقول وہ ایک اکیڈمک ہیں جو ’پچھلے کئی مہینوں سے پاکستان اور وزیراعظم کے لیے کام کر رہی ہیں۔‘ ان کا دعویٰ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے خود انھیں بطور ’ایڈوائزر‘ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کا حصہ بنایا تھا اور اپنی تقریر لکھنے کا ٹاسک دیا تھا۔ تاہم سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ بی بی سی نے اس معاملے میں وضاحت کے لیے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن سے رابطہ کیا ہے تاہم تادمِ تحریر ان کی طرف سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔

ادھر وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس حوالے سے لاعلمی ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ ’یہ خاتون کون ہیں اور وفد میں ہمارے ساتھ کیوں ہیں، ان سوالوں کا جواب دفتر خارجہ ہی دے سکتا ہے۔‘

جبکہ پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ شمع کا نام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کی منظور کردہ ’آفیشل لیٹر آف کریڈنس‘ کی فہرست میں شامل نہیں تھا۔

24 ستمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس یعنی مصنوعی ذہانت کے موضوع پر ایک مباحثہ ہوا تھا جس کا عنوان ’عالمی امن اور سلامتی‘ تھا۔ اس میں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے بھی تقریر کی تھی جس دوران ان کی پچھلی نشست پر شمع جونیجو بیٹھی ہوئی تھیں۔ شمع کی موجودگی پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ ’کیونکہ وزیر اعظم مصروف تھے اس لیے سلامتی کونسل میں یہ تقریر ان کی جگہ میں نے کی۔ ’دفتر خارجہ کی صوابدید و اختیار تھا، اور ہے کہ یہ خاتون، یا کس نے میرے پیچھے بیٹھنا ہے۔ وزیر دفاع نے کہا کہ ’یہ خاتون کون ہیں، وفد میں ہمارے ساتھ کیوں ہیں۔ اور ان کو میرے پیچھے کیوں بٹھایا گیا، ان سوالوں کا جواب دفتر خارجہ ہی دے سکتا ہے۔ میرے لیے مناسب نہیں کہ ان کی جانب سے جواب دوں۔‘

خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ ’غزہ پہ میرے خیالات واضح ہیں اور میں ان کا برملا اظہار کرتا ہوں۔۔۔ میرے ٹوئٹر اکاؤنٹ کی ہسٹری اس بات کی شہادت ہے کہ میرا فلسطین کے ساتھ رشتہ ایمان کا حصہ ہے۔‘ دراصل خواجہ آصف کی شمع جونیجو کے ساتھ تصویر کو سوشل میڈیا پر بعض صارفین کی جانب سے اس تناظر میں شیئر کیا جا رہا تھا کہ ماضی میں شمع کی جانب سے اسرائیل کی حمایت میں بیانات دیے گئے تھے۔ خود شمع نے ایکس پر پیغام میں کہا ہے کہ ’پاکستان کے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے میرے بیانات عرب ممالک کے ابراہم اکارڈز کے دوران تھے، میں نے غزہ جنگ کے بعد سے ہمیشہ اسرائیلی مظالم کی سخت مذمت کی ہے اور ہمیشہ کرتی رہوں گی۔‘

جبکہ پاکستان کے دفتر خارجہ نے وضاحت جاری کی ہے کہ شمع ’اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے پاکستانی وفد کی فہرست کا حصہ نہیں تھیں جس پر نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ (اسحاق ڈار) نے دستخط کیے تھے۔ دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ وزیر دفاع کی پچھلی نشست پر شمع جونیجو کی موجودگی کو اسحاق ڈار کی طرف سے ’منظور نہیں کیا گیا تھا۔‘

اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب اور سفارت کار منیر اکرم کہتے ہیں کہ جنرل اسمبلی میں جو بھی وفد جاتا ہے، اس کی پوری فہرست بنتی ہے جو دفتر خارجہ تیار کرتا ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس کے بعد یہ سمری کی شکل میں وزیر اعظم کے پاس جاتی ہے جو پھر وفد میں شامل افراد کے ناموں کی منظوری دیتے ہیں۔ اُن کے بقول وزیر اعظم کی جانب سے منظوری ملنے کے بعد وزارت خارجہ ان ناموں کی فہرست اقوام متحدہ کو بھیجتی ہے جس کے بعد اقوام متحدہ کی جانب سے ان افراد کے نام سے پاسز جاری کیے جاتے ہیں۔ منیر اکرم کہتے ہیں کہ جہاں تک سکیورٹی کونسل کی بات ہے تو وہاں بھی یہی طریقہ کار اپنایا جاتا ہے۔ اُن کے بقول وزیر اعظم یا وزیر خارجہ کے ساتھ اگر کوئی مہمان آتا ہے تو اس کے لیے بھی خط لکھا جاتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران بہت سے لوگ جنرل اسمبلی دیکھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور اُنھیں اس کے لیے وزیٹرز پاسز جاری کیے جاتے ہیں اور یہ افراد مہمانوں کی گیلری میں بیٹھتے ہیں۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی فرد کو اقوام متحدہ یا سکیورٹی کونسل کے اجلاس میں شرکت کا بیج ملتا ہے تو اگر ان کی وفد میں شامل کسی فرد سے واقفیت ہے تو وہ کہیں بھی جا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اُن کے بقول ’ہمارے لوگوں کا مزاج ہے کہ وہ کہیں بھی گھس کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر انھیں روکنا مشکل ہو جاتا ہے۔

Back to top button