ڈھاکہ یونیورسٹی میں جمعیت کی جیت: کیا پاکستان پر اثر پڑے گا ؟

بنگلہ دیش کی سب سے معروف ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ یونینز کے الیکشن میں 50 برس بعد جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ کی کامیابی کو ایک حیران کن واقعہ قرار دیا جا رہا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ سقوط ڈھاکہ کے بعد سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی زیر عتاب رہی ہے اور عوامی لیگ کے دور اقتدار میں اس کے کئی رہنماؤں کو بغاوت کے الزام پر پھانسیاں بھی دی گئیں۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دوبارہ زندہ ہو جانے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان میں بھی اسلامی جمعیت طلبہ دوبارہ سے کھڑی ہو جائے گی۔
یاد رہے کہ جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی نے تقسیم ہند کے بعد جماعت اسلامی کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ ایک طرف جماعت اسلامی ہند قائم ہوئی اور دوسری طرف جماعت اسلامی پاکستان۔ دونوں کے درمیان تنظیمی رشتہ ختم ہو گیا لیکن نظریاتی وحدت باقی رہی۔ جماعت اسلامی ہند نے وہاں کے آئین کے مطابق اپنے کام کا نقشہ بنایا اور جماعت اسلامی پاکستان نے پاکستان کے آئین کے مطابق۔
لیکن جماعت اسلامی دوسری مرتبہ تب تقسیم ہوئی جب مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ تاہم اس بار جماعت اسلامی کی حکمتِ عملی 1947 سے یکسر مختلف تھی۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران محمد علی جناح کو کافر اعظم قرار دے کر ان کی مخالفت کرنے والے مولانا مودودی نے پاکستان کو متحد رکھنے کی پوری کوشش کی۔ جماعت کی قیادت سمجھتی تھی کہ یہ مسلم اکثریتی ملک ہے‘ اس لیے یہاں نظریاتی وحدت کو قائم رکھنا ممکن ہے۔ لیکن مولانا مودودی کی یہ کوششیں رائیگاں گئیں اور مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ اس کے ساتھ جماعت بھی ایک بار پھر دو حصوں میں بٹ گئی۔
تقسیمِ ہند کے بعد دونوں ممالک میں جماعت اسلامی نے اپنے اپنے ہدف تبدیل کر لیے۔ جماعت اسلامی ہند نے سیاست کی بجائے دعوت کو اپنی کوششوں کا مرکز بنایا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں کی غالب اکثریت ہندو ہے‘ وہاں اسلامی انقلاب کا نعرہ حقیقت پسندانہ نہیں تھا۔ تقسیمِ پاکستان کے بعد جو دو ملک بنے‘ ان دونوں میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ اس لیے جماعت اسلامی کی حکمت عملی دونوں ممالک میں یکساں رہی۔ دونوں کو اسلامی ریاست بنانے کی کوشش کی گئی۔
بنگلہ دیش میں قوم پرستوں نے ان لوگوں کو غدار سمجھا جو پاکستان کی وحدت کے قائل تھے۔ انہوں نے جماعت اسلامی کو پاکستانی فوج کا پٹھو قرار دے کر بدترین ریاستی تشدد کا نشانہ بنایا۔
تاہم جماعت اسلامی بنگلہ دیش نے اپنی سیاسی جدوجہد جاری رکھی۔ اس نے عوام کے دل میں جماعت کیلئے ہمدردی پیدا کی۔ شیخ حسینہ واجد کے برسر اقتدار آنے سے پہلے‘ جماعت کی انتخابی کارکردگی بہت اچھی تھی۔ لیکن حسینہ نے انتخابات کی حرمت کو بھی پامال کیا اور ریاستی ظلم سے جماعت کا راستہ روکا۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کوشش جماعت کو اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھنے میں تو کامیاب رہی مگر عوام سے دور نہیں کر سکی۔ اسکا ایک بڑا ثبوت ڈھاکہ یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس یونین کے الیکشن میں میں اسلامی جمعیت طلبہ کی حالیہ کامیابی ہے۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اسلامی جمعیت طلبہ کی ڈھاکہ یونیورسٹی میں کامیابی کا یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ پاکستان میں بھی جماعت اسلامی یا اس کی طلبہ تنظیم کے دوبارہ زندہ ہونے کا کوئی امکان ہے۔ وجہ یہ ہے کہ بنگلہ دیش میں پچھلے برس جو عوامی انقلاب آیا تھا اس میں بنیادی کردار طلبہ نے ادا کیا تھا لہذا اس وقت بنگلہ دیش میں طلبہ تنظیموں کا عروج ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جب پاکستان متحد تھا تب بھی جماعت اسلامی مشرقی پاکستان کی قیادت کو سیاسی اعتبار سے جماعت اسلامی مغربی پاکستان کی قیادت سے زیادہ بالغ نظر سمجھا جاتا تھا۔
