حکومت نے اپنی پسند کے جسٹس امین کو آئینی بینچ کا ہیڈ کیسےبنوایا؟

بالاخر 26 ویں آئینی ترمیم کا پہلا نتیجہ سامنے آ گیا ہےجس کے مطابق جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نےسیاسی تنازعات کے حل کے لیے سات رکنی آئینی بینچ تشکیل دیتے ہوئے اپنے پسند کے جج جسٹس امین الدین خان کو اس کا پہلا سربراہ مقرر کر دیا ہے۔

 امین الدین خان کو سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا قریب ترین جج خیال کیا جاتا تھا۔ یوں چیف جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کی تمام تر مخالفت کے باوجود حکومتی اتحاد نے اس محاذ پر بھی جنگ جیت لی ہے اور اپنی مرضی کا جج لگاتے ہوئے اپوزیشن کو شکست دے دی ہے۔

پانچ نومبر کو کئی گھنٹے تک جاری رہنے والے اجلاس کے بعد جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے پانچ کے مقابلے میں سات ووٹوں کے تناسب سے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ نئے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کرنے کی مخالفت کی۔

جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کرنے کی حق میں ووٹ دینے والے جوڈیشل کمیشن کے اراکین میں خود جسٹس امین الدین خان، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، نمائندہ پاکستان بار کونسل اختر حسین ایڈووکیٹ، سینیٹر فاروق ایچ نائیک، شیخ آفتاب احمد، روشن خورشید بروچہ شامل ہیں۔

جوڈیشل کمیشن کی جانب سے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں تشکیل دیے جانے والے 7 رکنی آئینی بنچ میں جسٹس عائشہ ملک ،جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

 آئینی بینچ 60 دن کیلئے تشکیل دیا گیا

قانونی ماہرین کے مطابق آئینی بینچ تشکیل دیے جانے کے بعد سپریم کورٹ کا سیاسی کردار ختم ہو جائے گا اور تمام تر سیاسی تنازعات صرف آئینی بینچ ہی سنے گا لہذا سپریم کورٹ کی اہمیت بھی قدرے کم ہو جائے گی۔ وفاقی حکومت کی جانب سے آئینی بینچ تشکیل دینے کی بنیادی وجہ بھی یہی تھی کہ اعلی عدلیہ میں عمران خان کے حمایتی ججز اکثریت میں آ چکے تھے اور حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کر رہے تھے۔ حکومتی اتحاد کی جانب سے جسٹس امین الدین خان کو آئینی بینچ کا سربراہ مقرر کرنے کی بنیادی وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ ماضی میں کسی قسم کے سیاسی تنازع میں ملوث نہیں رہے اور ویسے بھی جسٹس منصور شاہ اور جسٹس منیب اختر کے تین رکنی ججز کمیٹی کا حصہ بن جانے کے بعد وہ سپریم کورٹ کے ججز کی سنیارٹی لسٹ میں پہلے نمبر پر آگئے تھے۔

یاد رہے کہ آئینی بینچ کی تشکیل سے ایک روز پہلے وفاقی حکومت نے اعلی عدلیہ میں یوتھیے ججز کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کیلئے سپریم کورٹ کے ججز کی تعداد بڑھا کر 34 کر دی تھی۔ اس کے علاوہ حکومت نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کرتے ہوئے چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت کو بھی تین برس سے بڑھا کر پانچ برس کر دیا تھا۔ یوں حکومت نے اوپر تلے کئی سیاسی کامیابیاں حاصل کی ہیں اور عمران خان کی تحریک انصاف کو مکمل طور پر کارنر کر دیا ہے۔

 راولپنڈی میں طاقتور فیصلہ ساز حلقے اب پر امید ہیں کہ آئینی بینچ کے قیام کے بعد بعد عدلیہ کوئی مس ایڈونچر کرتے ہوئے حکومت کے خاتمے کا ذریعہ نہیں بنے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ ڈوبتی ہوئی ملکی معیشت کو بچایا جا سکے لہذا جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں آئینی بینچ تشکیل دیے جانے کے بعد کسی مس ایڈونچر کا امکان نظر نہیں آتا۔

یاد رہے کہ آئینی بینچ اور اس کے ممبران کا تقرر 26 ویں ترمیم کے تحت نو تشکیل کردہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان نے کیا جس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی متناسب نمائندگی موجود ہے۔

Back to top button