یوتھیا ازم کا شکار جسٹس منیب اختر ججز کمیٹی سے دوبارہ فارغ
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے عمراندار جج جسٹس منیب اختر کو مکمل کھڈے لائن لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2024 میں ترمیم کرکے 3 رکنی ججز کمیٹی کی ہئیت کو دوسری مرتبہ تبدیل کردیا۔ جس کے بعد اب 3 رکنی ججز کمیٹی میں چیف جسٹس پاکستان، سینئر ترین جج جسٹس منصور شاہ اور آئینی بینچز کے سینئر جج کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی تیسرے سینئر جج جسٹس منیب اختر کو کمیٹی سے دوسری مرتبہ آؤٹ کر دیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ اس سے قبل سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے جسٹس منیب اختر کو 3 رکنی ججز کمیٹی سے فارغ کر کے جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا تھا تاہم جسٹس یحیی آفریدی نے چیف جسٹس کا منصب سنبھالتے ہی ججز کمیٹی کی تشکیل نو کر کے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کو کمیٹی کا حصہ بنا دیا تھا تاہم اب سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کے بعد جسٹس منیب اختر ایک بار پھر 3رکنی کمیٹی سے فارغ ہو گئے ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم وقت کی ضرورت تھی، جب جوڈیشل کمیشن کے تحت آئینی بنچز کےلیے ججز کی نامزدگی کا اختیار آئین نے دیا ہے تو آئینی بنچز کے ججز کی نمائندگی بھی ججز کمیٹی میں ضروری تھی، تاہم یہ تاثر درست نہیں ہے قانون سازی کے ذریعے کسی جج کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ آیا تو ابھی صدر مملکت نے ایکٹ پر دستخط نہیں کیے تھے کہ چند درخواست گزار جلدی جلدی سپریم کورٹ پہنچے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 چیلنج کردیا تھا، سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کیس سماعت کےلیے مقرر کیا اور چھ ماہ تک حکم امتناع دیے رکھا جو انکی ریٹائرمنٹ تک جاری رہا۔
تاہم سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے حلف اٹھاتے ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ پر سماعت کےلیے فل کورٹ تشکیل دیا اور براہ راست عدالتی کارروائی بھی دکھائی گئی۔ فل کورٹ کے دس رکنی اکثریتی فیصلے میں سپریم کورٹ نے قرار دیا پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے، پانچ ججز نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کے اختیار پر اختلاف کیا تھا۔
جس کے بعد اس قانون پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا تاہم مخصوص نشستوں کے کیس اور آرٹیکل 63 اے کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر کے عمرانداری دکھانے پر صدر مملکت کی جانب سے ایک آرڈیننس جاری کردیا گیا جس میں کہا گیا چیف جسٹس پاکستان ججز کمیٹی کےلیے تیسرے ممبر کا انتخاب خود کر سکتے ہیں، یوں جسٹس منیب اختر کی جگہ جسٹس امین الدین خان کو ججز کمیٹی میں تیسرے ممبر کے طور پر نامزد کیا گیا۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کو خط لکھ دیا اور کہا جب تک جسٹس منیب اختر کو ججز کمیٹی میں شامل نہیں کیا جاتا یا صدارتی آرڈیننس کو انتظامی سائیڈ پر فل کورٹ اجلاس بلا کر یا عدالتی سائیڈ پر فل کورٹ میں طے نہیں کیا جاتا ججز کمیٹی کے کسی اجلاس میں شرکت نہیں کرونگا۔
قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس پاکستان کے طور پر حلف اٹھایا تو صدارتی آرڈیننس کے تحت ایک مرتبہ پھر ججز کمیٹی کی کمپوزیشن میں تبدیلی کرکے جسٹس منیب اختر کو دوبارہ ججز کمیٹی میں شامل کیا گیا۔
جوڈیشنل کمیشن کے پہلے اجلاس میں جسٹس امین الدین کو آئینی بینچ کا سربراہ بنائے جانے کا امکان
تاہم اب پارلیمنٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل منظور کر کے ججزکمیٹی کی ہئیت ایک بار پھر بدل دی ہے۔نئی ترمیم کے تحت پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی چیف جسٹس، سینیئر ترین جج اور آئینی بینچ کے سینیئر ترین جج پر مشتمل ہوگی۔ جب تک آئینی بنچ کا سینئیر ترین جج نامزد نہیں ہوتا تب تک کمیٹی چیف جسٹس اور سینیئر ترین جج پر مشتمل ہو گی۔ ترمیم کی منظوری کے بعد جسٹس منیب اختر کی ایک بار پھر ججز کمیٹی سے چھٹی ہو گئی ہے۔