پاکستان میں دو قطاریں توجہ کا مرکز کیوں بن گئیں؟

پاکستان میں قطاروں کا لگنا کوئی نئی بات نہیں، یہ قطاریں اکثر کم قیمت ایشا کے حصول کیلئے لگی نظر آتی ہیں، جس میں زیادہ تر متوسط اور غریب طبقہ شامل ہوتا ہے لیکن لاہور میں کینیڈین کافی شاپ ٹم ہارٹنز کے باہر لگی لائن نے لوگوں کی توجہ حاصل کر لی۔

کینیڈین کافی شاپ ٹِم ہارٹنز کے باہر لگی لائن جس میں لوگ بڑے حوصلے سے پیسے تھامے اپنی باری کے منتظر ہیں، سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہو رہی ہے، اس کے بارے میں سمجھا یہ جاتا ہے کہ یہاں سے خریداری ایک عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہے یا پھر اس کو شاید ان کے نام سے بھی آگاہی نہیں ہوگی، دوسری طرف وہ قطاریں جہاں مایوس چہروں کے ساتھ لوگ آٹا اور بنیادی راشن کا سامان لینے کیلئے سستے راشن ڈپو اور سٹورز کے باہر کھڑے ہیں، یہ قطاریں کئی جگہ پر دیکھی جا سکتی ہیں اور مقامی ذرائع ابلاغ میں کئی روز سے ان کی تصاویر سامنے آ رہی ہیں۔

پہلی قسم کی قطار کو دیکھ کر خاص طور پر سوشل میڈیا پر بحث کرنے والے چند صارفین کا خیال ہے کہ دیکھیں، کون کہتا ہے کہ پاکستان کے لوگ غریب ہیں یا ان کے پاس پیسہ نہیں ہے، ادھر وہ صارفین ہیں جو دوسری تصویر دکھا کر جواب دیتے ہیں کہ ’پھر یہ کیا ہے؟

بعض لوگوں کے خیال میں یہ دونوں تصاویر پاکستان میں معاشی اعتبار سے دو انتہائی طبقوں یعنی ’انتہائی امیر‘ اور ’انتہائی غریب‘ کی نمائندگی کر رہی ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کے درمیان کا طبقہ یعنی ’’مڈل کلاس‘‘ کیوں دکھائی نہیں دے رہا۔

معاشی ماہرین کے مطابق کسی بھی ملک کی مڈل کلاس یا درمیانی طبقے کو معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی تصور کیا جاتا ہے، یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی قوتِ خرید کی وجہ سے پیسہ گردش میں رہتا ہے۔ یہ لوگ صنعت کے پہیے کو بھی چلاتے ہیں اگر مڈل کلاس کا حجم بڑا ہوگا تو یہ ظاہر کرے گا کہ خطِ غربت سے نیچے رہنے والے لوگوں کی تعداد کم ہو رہی ہے یعنی وہ لوگ ’’مڈل کلاس‘‘ میں داخل ہو رہے ہیں۔

پاکستان میں راشن کی دکانوں کے باہر حالیہ مناظر کو دیکھنے والے بعض افراد یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ پاکستان میں ’’مڈل کلاس‘‘ سکڑ رہی ہے یعنی ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔

ماہرینِ اقتصادیات کے خیال میں ایسا سوچنا غلط نہیں ہوگا خاص طور پر اس وقت جب پاکستان میں مہنگائی مسلسل بڑھ رہی ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر مسلسل کم ہو رہے ہیں، پاکستان کے نمایاں ماہر اقتصادیات اور سابق وزیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس بات کا خدشہ ہے کہ آئندہ کچھ ہی عرصہ میں لگ بھگ دو کروڑ کے قریب لوگ پاکستان میں غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے، ان کے خیال میں یہ وہ لوگ ہیں جن کی ماہانہ آمدن 30 سے 40 ہزار روپے کے درمیان ہے۔

ماہرِ اقتصادیات اور سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ انسٹی ٹیوٹ اسلام آباد یعنی ایس ڈی پی آئی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ بین الاقوامی طور پر ورلڈ بینک کے مطابق مڈل کلاس میں اس شخص کو سمجھا جاتا ہے جو ایک دن کے دس ڈالر کماتا ہے یعنی ایک مہینے کے تین سو ڈالر اس کی آمدن ہے جوکہ موجودہ ایکسچینج ریٹ کے مطابق لگ بھگ 80 ہزار پاکستانی روپے بنتے ہیں۔

اس وقت پاکستان میں مڈل کلاس کو خاتمے کا سامنا ہے، دنیا کی معیشت بھی زیادہ اچھی نہیں، یوکرین میں خانہ جنگی بھی جاری ہے اور پاکستان کے آئی ایم ایف کے پاس جانے کے اثرات بھی رہیں گے کیونکہ پاکستان نے آئی ایم ایف کے پاس تو رہنا ہی ہے کیونکہ اس کے بغیر گزارا نہیں۔

ڈاکٹر ساجد امین سمجھتے ہیں کہ ان مشکل مالی حالات میں مڈل کلاس کے سکڑتے ہوئے رجحان کو دیکھا جائے تو رواں سال سب سے مشکل ہوگا، 2023 وہ سال ہوگا جس میں مڈل کلاس مکمل طور پر معدوم ہو سکتی ہے، جب تک پاکستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر ڈبل ڈجٹ میں نہیں جاتے یعنی دس یا اس سے زیادہ بلین ڈالر کی سطح تک نہیں جاتے تو بہتری کے امکانات بہت کم ہیں۔

پاکستان کی مشکلات میں مزید اضافہ اس وقت ہو سکتا ہے جب دنیا میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو۔ ’اگر دس ڈالر فی بیرل قیمت میں اضافہ ہو تو پاکستان پر اس کا اثر لگ بھگ تین بلین ڈالر کے قریب پڑتا ہے۔

حکومت کو اس وقت بجٹ خسارے کا سامنا ہے اور قرضہ جات اتنے زیادہ ہیں کہ حکومت کے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ وہ ریلیف کی سکیمیں شروع کر سکے، ورنہ پاکستان پر درآمدات کا دباو بہت زیادہ ہو جائے گا، اس لیے حکومت کو چاہئے کہ زراعت، فوڈ سیکیورٹی یا فوڈ چین کے شعبے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتوں کے اندر ان شعبوں کی نشاندہی کر لے جن میں لیبر کا کام زیادہ ہے، اس طرح معاشی سرگرمی شروع کی جا سکتی ہیں، دوسری صورت میں پاکستان کے قرضے بڑھیں گے اور زرِ مبادلہ کے ذخائر مزید کم ہوں گے۔

پہلی پاکستانی اینی میٹڈ فلم ’’اللہ یار‘‘ ریلیز کیلئے تیار

Related Articles

Back to top button