اسٹیبلشمنٹ کا اپنا کھلاڑی عمران فوج پر برہم کیوں ہے؟

 

معروف صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس

نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ پر اس لیے برہم ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت نیوٹرل ہو گئی جب انکے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جارہی تھی۔ عمران کی مایوسی اور غصہ اس لیے بھی قابل فہم ہے کہ پاکستان کی 75 سالہ تاریخ فوجی مداخلتوں سے بھری پڑی ہے اور خود عمران خان بھی کل تک اسٹیبلشمنٹ کی ٹیم کے کھلاڑی ہی شمار کیے جاتے تھے۔ بقول مظہر، عمران کا گلہ یہ ہے کہ اسٹیبلشمینٹ نے انہیں اقتدار سے بے دخل کروا کر کرپٹ مافیا کو دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھا دیا ہے۔

اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں مظہر عباس سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے ایک پرانے بیان کا حوالہ دیتے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "مارشل لا اور مسلح افواج مکمل طور پر دو مختلف چیزیں ہیں۔ مارشل لا کسی بھی نظام کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا یے اور ہمیشہ تباہی لاتا ہے۔

جبکہ مسلح افواج ایک ادارہ ہیں جو ملکی جغرافیائی سرحدوں کا تحفظ کرتا ہے اور حکومت کی ہدایت کے تحت سول اداروں کی مدد کے لیے آتا ہے”۔ 26 مارچ 1983 کو کراچی میں بیان دیتے ہوئے بی بی نے کہا تھا کہ ’’مارشل لا حکومت کا تختہ اُلٹتی ہے قومی یکجہتی کو تباہ کرتی، اور ریاست کی جڑوں کو کھوکھلا کرتی ہے جبکہ فوج ریاست کی بنیادوں کی حفاظت کرتی ہے۔ مارشل لا فردِ واحد کا نظام ہوتا ہے جبکہ فوج عوام کی تخلیق کردہ ہے۔

مارشل لا ایک فرد کے عمل کا نتیجہ ہے جبکہ مسلح افواج پارلیمنٹ کی پیدائش ہے اور پارلیمنٹ پوری قوم کی نمائندہ ہوتی ہے۔ فوج میں چیف آف آرمی اسٹاف کی میعاد مقرر ہوتی ہے اور اس میں توسیع قانونی اور متعلقہ پارلیمنٹ کے ذریعہ ہوسکتی ہے جبکہ مارشل لا میں چیف خود اپنی خواہشات کے مطابق توسیع کرتا ہے۔‘‘

غداری اور محبِ وطن کے حوالے سے کمیونسٹ رہنمائوں کا دفاع کرتے ہوئے بینظیر نے تین روز تک جاری رہنے والے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’میں محبِ وطن اور غدار جیسے الفاظ کی کج بحثی میں نہیں پڑنا چاہتی کیونکہ میں جام ساقی کو ذاتی طور پر زیادہ نہیں جانتی اس لیے اپنی فہم و فراست کی بنیاد پر لفظ محبِ وطن کو واضح کروں گی۔ محبِ وطن وہ ہے جو جغرافیائی حدود کو تبدیل نہیں کرتا۔

جو ریاست کو عوام کی امانت سمجھتا ہے، جو استحصال کے خلاف لڑتا ہے، جو قانون کی نظر میں برابری کا قائل ہے اور جو آئین کے سامنے سرنگوں ہے۔ میری نظر میں وہی محبِ وطن ہے۔ میں نے جام ساقی سے گفتگو میں ایسی کوئی بات نہیں پائی جو ان اصولوں سے متصادم ہو اس لیے میں اُنہیں غدار نہیں سمجھتی‘‘۔

مظہر عباس بتاتے ہیں کہ اِس مقدمے میں بینظیر بھٹو سے تفصیلی جرح بھی کی گئی خاص طور پر مارشل لا کے حوالے سے۔ جب ابتدا میں اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کی ذات کیا ہے تو جواب آیا، ’’یہ سوال غیر متعلقہ ہے‘‘۔ پھر اُن سے پوچھا گیا کہ کیا آپ بھٹو کو ذات سمجھتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا’’جہاں تک میرے بھٹو ہونے کا تعلق ہے تو بھٹو میرے نام کا حصہ ہے۔

نام جو کسی فرد کو شناخت دیتا ہے‘‘۔ بے نظیر کے اِس غیر معمولی بیان کو دہرانے کی بنیادی وجہ بتاتے ہوئے مظہر عباس کہتے ہیں کہ آج بھی سیاست میں فوج کے کردار کے حوالے سے جاری بحث ہے۔

جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن میں سب سے بڑی خرابی کیا تھی؟

فوج اپنے آپ کو سیاست سے دور رکھنے کی بات کر رہی ہے جبکہ سابق وزیراعظم عمران خان اُسے نیوٹرل نہ رہنے کا مشورہ دے رہے ہیں اور اُن کے بقول اُنہیں اُن کے ساتھ کھڑا ہونا چاہئے کیونکہ وہ خود کو ’’حق‘‘ اور باقیوں کو باطل اور غدار قرار دے رہے ہیں۔ اب تو بات اس سے بھی ذرا آگے جارہی ہے۔

اہنے ’’ڈیڈ سیل‘‘ سے ’’اگر مجھے قتل کیا گیا‘‘ نامی کتاب لکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے عمران خان اب یہ دعوی کر رہے ہیں کہ ’’مجھے بھی قتل کر دیا جائے گا‘‘۔ فرق صرف پرنٹ اور ڈیجیٹل دور کا ہے۔ مگر بھٹو نے قید خانہ یا قید تنہائی میں وہ سب کچھ تحریر کیا خان صاحب نے غالباً بنی گالہ میں اپنی رہائش پر ایک ویڈیو پیغام میں ریکارڈ کرایا۔

مظہر عباس کہتے ہیں کہ ملک میں طویل مارشل لا جمہوری تسلسل میں رکاوٹیں ڈال کر اُسے کمزور کرتے ہیں۔ فوجی اسٹیبلشمینٹ کی جانب سے حکومتیں گرانے اور بنانے کا عمل جمہوریت کی راہ میں ’’مداخلت‘‘ سمجھا جاتا ہے اور ملک کو آگے نہیں بڑھنے دیتا۔

لہٰذا اب جبکہ فوج خود کو ’’نیوٹرل‘‘ رکھنا چاہتی ہے، اور دعویٰ کرتی ہے کہ وہ سیاست سے دور ہے تو خان صاحب کیوں اُسے ’’چوکیدار‘‘ بنانا چاہتے ہیں۔ ایسی باتیں نہ کریں۔ انقلابی شاعر خالد علیگ مرحوم نے جنرل ضیاء کے مارشل لا پر کہا تھا ’’گھر پر قبضہ کر بیٹھے گا، لوگو چوکیدار نہ رکھنا‘‘۔

Related Articles

Back to top button