جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن میں سب سے بڑی خرابی کیا تھی؟

معروف مصنف اور لکھاری محمد حنیف نے کہا ہے کہ عمران خان نامی شخص جنرل قمر باجوہ کی یا ان کے زیر کمان ادارے کی غلطی نہیں ہیں۔ وہ ہماری 75 سالہ اجتماعی غلطیوں کا نتیجہ ہیں۔ غلطی صرف اتنی ہے کہ اگر کسی فوج کے پاس جنگ کا کوئی منصوبہ ہوتا ہے، آنے والے سالوں کے لیے کوئی روڈ میپ ہوتا ہے تو عام طور پر اسے خفیہ رکھا جاتا ہے کہ کہیں دشمن کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

لیکن یہ کیسی باجوہ ڈاکٹرائن تھی کہ جو سہیل وڑائچ سے لے کر میرے محلے کے ہر لونڈے تک کو پتہ تھی۔ پاکستان کے مستقبل قریب کے لیے بنائے گئے منصوبے کو زبان زدعام کرنا ہی شاید سب سے بڑی غلطی تھی۔ شاید اسی وجہ سے آئی ایس پی آر کے بنائے ہوئے گیت اب گالیوں میں بدل گئے ہیں۔ ہم لوگوں نے دشمن کے جن بچوں کو پڑھایا تھا اب وہ پڑھ لکھ کر استاد کے گلے پڑ رہے ہیں، فوٹو شاپ کی تربیت اب ادارے کے خلاف ہی استعمال ہو رہی ہے اور ففتھ جنریشن وار اب سوشل میڈیا کی گوریلا جنگ میں بدل گئی ہے۔

بی بی سی کے لیے اپنی تازہ تحریر میں محمد حنیف کہتے ہیں کہ اسلام آباد کے بدلتے موسموں کو قریب سے سمجھنے والے شاید کئی غلطیاں نکال لیں لیکن مجھے تو باجوہ ڈاکٹرائن میں صرف یہی ایک سقم نظر آیا اور وہ یہ کہ انہوں نے اپنا ولی عہد نامزد کر دیا، یا ولی عہد نے قوم کو یقین دلوا دیا کہ سپہ سالاری میرے نام لکھی جا چکی ہے۔ ایسے ماحول میں باقی درجنوں جرنیل جو میرٹ پر اوپر آئے ہیں، وہ ولی عہد کی نامزدگی کیوں مان لیں؟

کئی مشہور انگریزی کتابوں کے مصنف محمد حنیف کا کہنا ہے آج جس بچے کے پاس فون ہے وہ دفاعی تجزیہ نگار بن چکا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ فلاں جنرل کو گھر بھیجو، اس والے جرنیل کو سپہ سالار بناؤ، اور وہ جو دوسرا دبنگ لہجے والا تھا اس کو آئی ایس آئی کا سربراہ بناؤ۔ ایسے بچے اب یہ مطالبہ بھی کرتے نظر آتے ہیں کہ اگر تم یہ کرو گے تو فوج میری ہے ورنہ میں ابھی چوکیدار چور بن گئے والی میم دوبارہ شیئر کرنے لگا ہوں۔
حنیف کے بقول جو باجوہ ڈاکٹرائن ہم تک پہنچی تھی اس کا فلسفیانہ حصہ تو سر سے گزر گیا، لیکن ہمیں یہ علم تھا کہ چھ سال تک جنرل باجوہ ہی رہیں گے۔ جب ان کے نوٹیفیکشن کا وقت آیا تو سر باجوہ نے خود ہی بٹھا کر اپنی ایکسٹینشن کا حکم نامہ لکھوا لیا۔ اس ڈاکٹرائن میں انھوں نے اپنا ولی عہد بھی نامزد کر دیا تھا۔ اس ولی عہد نے کمان سنبھال کر یہ بات یقینی بنانی تھی کہ عمران آئندہ آنے والا الیکشن بھی جیتیں۔ یہ ڈاکٹرائن پورے ملک کو پتہ تھی اور تحریک انصاف والوں کو یہ اپنے نصیب کا لکھا لگتا تھا۔

محمد حنیف کے بقول تحریک انصاف والوں کے ساتھ کچھ ایسا ہوا کہ جیسے ابو نے عید پر نیا موبائل فون لے کر دینے کا وعدہ کیا ہو اور عید کے دن وہ پرانا فون بھی ضبط کر کے کہیں کہ تم اس پر صرف ٹوٹے دیکھتے ہو، میں نے تو تمھیں پڑھائی کے لیے لے کر دیا ہے۔ ہم جمہوریت پسند ٹائپ، جمہوریت کے حسن کی تو بہت بات کرتے ہیں لیکن ادارے کے حسن کی بات نہیں کرتے۔ ادارے میں صلاحیت ہے کہ وہ اپنی غلطی مانے نہ مانے لیکن تھوڑا راستہ بدل کر آگے چل پڑتا ہے۔ 1972 میں ہمارا ادارہ شکست خوردہ تھا اور پانچ سال بعد ہی ایک منتخب وزیر اعظم کو پھانسی لگا کر ہمیں نظام مصطفیٰ کے فوائد بتا رہا تھا۔
پی ٹی آئی کے جو سیاسی کارکن فوج میں اپنی پسند کی کمان چاہتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ فوج میں ترقیاں صرف میرٹ پر ہوتی ہیں۔ شہباز شریف اپنے بیٹے کو پنجاب کا وزیراعلیٰ لگا رہے ہیں، شاہد خاقان اور سعد رفیق جیسے منھ پھٹ بھی بیعت کر لیں گے۔ لیکن جنرل باجوہ اپنے کسی بھانجے یا بھتیجے کو کور کمانڈر لگوانے کی کوشش کریں تو کیا ہو گا؟ ادارے کی سوچ اتنے آگے کی ہے کہ کسی جنرل کا بیٹا یا بھانجا آپ کو فوج میں ملے گا ہی نہیں۔ تو باجوہ ڈاکٹرائن میں واحد غلطی یہ تھی کہ جنرل باجوہ نے اپنا ولی عہد نامزد کر دیا، یا ولی عہد نے قوم کو یقین دلوا دیا کہ سپہ سالاری میرے نام لکھی جا چکی ہے۔ ایسے ماحول میں باقی درجنوں جرنیل جو میرٹ پر اوپر آئے ہیں وہ ولی عہد کی نامزدگی کیوں مان لیں؟ کیا انھوں نے 30 سال تک محنت اس لیے کی ہے کہ سلیوٹ ماریں اور پھر اپنے حصے کے پلاٹ لے کر گھر بیٹھ جائیں۔

محمد حنیف کہتے ہیں کہ کہ مغلوں سے بھی پہلے کی رسم ہے کہ بادشاہ جیسے ہی ولی عہد نامزد کرتا تھا تو اس کے خلاف محلاتی سازشیں شروع ہو جاتی تھیں۔ اگر ولی عہد چھوٹی عمر کا ہوتا تو اس کے دودھ میں زہر ملانے کی کوشش ہوتی۔ سگر وہ بالغ ہوتا تو اس کا جام بھرنے والے پر کڑی نظر رکھی جاتی تھی۔لیکن نہ ہمارا ادارہ بادشاہت ہے نہ جنرل فیض حمید کوئی مغل شہزادہ کہ باقی بھائیوں کی آنکھوں میں لوہے کی گرم سلائی پھیر کر حج پر بھیج دیں۔

عمران خان سیاست میں گالم گلوچ کلچر کے بانی کیسے بنے؟

نہ ہی وہ کوئی پرنس محمد بن سلمان ہیں جو اپنے ابا کو کہے اب آپ آرام کریں، میں اپنی بادشاہت کے لیے آپ کے انتقال پرملال کا انتظار کب تک کروں۔ لہذا چاہے آپ آئی ایس پی آر کے گیت گائیں یا گالیاں دے لیں، ایک دوسرے کو بوٹ پالشیا کہہ لیں یا بچوں کی طرح مچل جائیں کہ مجھے تو وہ والا سپہ سالار ہی چاہیے، فوج کے ادارے کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بوٹ کم اور پالش زیادہ ہے اور بوٹ پالش کرنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔

What was the biggest flaw in General Bajwa’s doctrine? video

Related Articles

Back to top button