خیبر پختونخواہ کے بزدار اور فرح گوگی کون ہیں

سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلیم صافی کہتے ہیں کہ پنجاب کے برعکس خیبر پختونخوا میں اتفاق رائے سے نگران وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوا لیکن اب پتہ چلا کہ مولانا فضل الرحمان  نے کیا کھیل کھیلا ہے۔ دراصل انہیں صوبے میں نگران وزیراعلیٰ کی صورت میں ایک عثمان بزدار چاہئے تھا کیونکہ بشریٰ بی بی اور فرح گوگی کی طرح صوبے کو اصل میں چلانے کے لئے انہوں نے پہلے سے اپنے سمدھی غلام علی کو گورنر بنا رکھا تھا، ان کا منصوبہ یہ تھا کہ حد سے زیادہ شریف نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان آرام سے بیٹھے رہیں گے اور حد سے زیادہ ہوشیار گورنر غلام علی صوبہ چلائیں گے۔

اپنے سیاسی تجزئیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ پہلی فرصت میں کے پی کے کے نگران وزیر اعلیٰ اعظم خان کو وہ  کابینہ دلوائی گئی جو پچاس فی صد جے یو آئی کے وابستگان یا اے ٹی ایمز پر مشتمل ہے،کوٹے میں دو مسلم لیگ (ن) ، دو اے این پی کے جن میں سے بھی ایک عملاً غلام علی کے گروپ کے بندے ہیں ا ور دو پیپلز پارٹی کے وزیر دیے گئے۔ایک ایسے صاحب بھی وزیر بنائے گئے جو سرکاری ملازم تھے اور اب انہیں فارغ کرنا پڑا۔بے شرمی کی انتہا دیکھ لیجئے کہ اب اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر بخاری کے بیٹے جرارحسین بخاری کو پختونخوا میں ایڈوائزر مقرر کیا گیا۔ ان سب تماشوں پر نگران وزیراعلیٰ یا تو خاموش تھے یا پھر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ کابینہ کے پہلے اجلاس کی صدارت کے لئے گورنر جن کا انتظامی امور سے کوئی تعلق نہیں، آکر بیٹھ گئے۔ اپنے بیٹے جو پشاور کے مئیر ہیں کو بھی اس اجلاس میں بٹھایا تھا۔

سلیم صافی کے مطابق ایک وزیر کی تقرری کے بارے میں جب وزیراعلیٰ سے سوال کیا گیا تو انہوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ دوسری طرف صوبے میں کرپشن کا بازار یکدم ایسا گرم ہوا ہےکہ لوگ پی ٹی آئی کے دور کو یاد کرنے لگے ۔ سیکرٹری سے لے کر چپراسی تک غلام علی اپنے بندے لگوانا چاہتے ہیں جب کہ دوسری طرف اتحادی جماعتیں اپنا حصہ مانگ رہی ہیں۔ وزیراعلیٰ حیران ہیں کہ کریں تو کیا کریں ؟ مولانا اور غلام علی چیف سیکرٹری اور آئی جی بھی اپنا لگوانا چاہتے تھے لیکن اس ایک کام میں وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے اختیارات استعمال کئے جس پر مولانا نالاں ہیں اور انہوں نے نون لیگ پر دبائو بڑھانا شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف غلام علی کے رویے سے تنگ آکر نگران وزیراعلیٰ حیران اور پریشان ہیں، گورنر کے پی کے غلام علی تمام ڈویژنز اور اضلاع میں اپنے کمشنر اور ڈپٹی کمشنر لگوانا چاہتے تھے اور چیف سیکرٹری نے چوں کہ ان کی لسٹ کو من و عن قبول نہیں کیا اس لئے وہ ان سے ناراض ہیں ۔ اسی طرح وہ ہر ضلع میں اپنی مرضی کے ایس پیز لگوانا چاہتے تھے اور چونکہ آئی جی نے گورنر کی مرضی کے مطابق تقرریاں نہیں کیں، اس لئے غلام علی کو اب آئی جی بھی زہر لگنے لگے ہیں۔

سلیم صافی ماضی کے حوالے سے بتاتے ہیں کہ  خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ اعظم خان بڑے خاندان سے تعلق رکھنے والے سابق بیوروکریٹ ہیں۔ اچھی شہرت کے حامل ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ایک تو حد سے زیادہ شریف ہیں اور دوسرے اب بہت ضعیف ہیں۔ 2018 کا جسے  الیکشن، جسے عمران خان کے سوا باقی سب سیاسی جماعتیں متفقہ طور پر  سلیکشن قرار دیا  اس  کے لئے قائم نگران حکومت میں اعظم خان وفاقی وزیر داخلہ تھے۔ ان کی اس شرافت سے تب کے سلیکٹرز نے بھی فائدہ اٹھایا ۔ وہ آرام سے ایک کونے میں بیٹھے رہے ۔ ادھر آرٹی ایس فیل کیا گیا، ادھر پولنگ اسٹیشنوں سے پولنگ ایجنٹ باہر نکلوائے جاتے رہے لیکن وہ کچھ کررہے تھے اور شاید نہ کچھ کرسکتے تھے۔ جب جے یو آئی نے پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ کے لئے ان کا نام تجویز کیا تو میں اس نامزدگی پر حیران رہ گیا کیونکہ اصولی طور پر تو 2018 کی نگران حکومت کے ہر فرد کو اب کی بار نگران حکومت سے دور رکھنا چاہئے تھا ۔ ان کے 2018 کی سلیکشن میں اس حد سے زیادہ شریفانہ کردار کی وجہ سے ”کسی“ نے پرویز خٹک کی ڈیوٹی لگائی کہ وہ اعظم خان کے معاملے پر محمود خان وغیرہ کو بھی راضی کرادیں اور انہوں نے یہ معجزہ کر دکھایا ۔پورے ملک میں واہ واہ ہونے لگی . لیکن اب پتہ چلا کہ مولانا صاحب نے کیا کھیل کھیلا ہے.

سلیم صافی کہتے ہیں کہ شادی کی ایک تقریب میں …. میں نے محسوس کیا کہ نگران وزیراعلیٰ اور گورنر کی بات چیت بند ہے کیونکہ اس دو ڈھائی گھنٹے کی مجلس میں انہوں نے ایک دوسرے سے کوئی بات نہیں کی ۔مجھ سے رہا نہ گیا اور ان سب کے سامنے وزیراعلیٰ اعظم خان سے کہا کہ سر! آپ مستعفی ہوکر اس گند سے نکل کیوں نہیں جاتے تو اس شریف آدمی نے کہا کہ سلیم! اس پرپھر کسی وقت بات کرلیں گے۔  سلیم صافی کہتے ہیں کہ  میں حیران ہوں کہ دہشت گردی کے فرنٹ لائن صوبے میں اگر صوبے کے بڑوں کے مابین تعلقات کار ایسے ہوں ، تو اس صوبے کا کیا بنے گا ؟ صوبے کو سب سے بڑا چیلنج طالبان کا درپیش ہے لیکن اس حوالے سے گورنر غلام علی اور جے یوآئی مکمل خاموش ہیں۔ ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی نے علما کے نام جو سوالنامہ بھیجا،اس کے مخاطب بنیادی طور پر علما کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ہیں لیکن آج تک انہوں نے اس موضوع پر لب کشائی کی ہے اور نہ غلام علی نے بلکہ اسلام آباد میں اس سلسلے میں علما کی جو میٹنگ بلائی گئی اس میں بھی وزیر مذہبی امور اور مولانا کے بیٹے اسد محمود نے بہانہ بنا کرشرکت نہیں کی اور مفتی تقی عثمانی صاحب کو آگے کیا۔ نہ وہ کھل کر طالبان کا ساتھ دے رہے ہیں اور نہ کھل کر مخالفت کررہے ہیں بلکہ انہیں صرف اپنے بندوں کو اہم عہدوں پر تعینات کروانے اور اگلے انتخابات کے لئے انجینئرنگ کرنے میں دلچسپی ہے۔ دوسری طرف شہباز شریف کو صرف پنجاب اور زرداری کو صرف سندھ سے دلچسپی ہے۔ نہ جانے پختونخوا کے لوگوں سے کیا گناہ سرزد ہوا ہے کہ ان کے اوپر اس طرح کی حکومتوں کی صورت میں ایک کے اوپر دوسرا عذاب مسلط ہوتا ہے۔

پرویز الٰہی کی ہٹ دھرمی،7دھڑوں والی مسلم لیگ پھرٹوٹ گئی

Related Articles

Back to top button