بلوچ قوم پرست چینیوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟

پاکستانی ریاست کے خلاف نبردآزما بلوچ قوم پرست عسکریت گروہ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں موجود چینی باشندوں کو نشانہ بنا رہے ہیں

جس کی بنیادی وجہ ان کا سی پیک اور گوادر منصوبوں سے منسلک ہونا ہے۔

چینیوں کو نشانہ بنانے کے زیادہ تر واقعات کراچی میں پیش آئے ہیں۔ ماضی میں بلوچ عسکریت پسند گروپ چینی باشندوں کو نشانہ بنانے کے لئے فدائین ٹائپ گوریلا کارروائیاں کرتے رہے ہیں جن میں تمام حملہ آور لڑتے ہوئے مارے جاتے تھے۔ تاہم یہ پہلا موقع ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں نے اپنی سٹرٹیجی تبدیل کی ہے اور ایک خاتون خودکش بمبار کو استعمال کرتے ہوئے سافٹ ٹارگٹ کو نشانہ بنایا ہے۔

اس مرتبہ کراچی یونیورسٹی میں واقع چینی انسٹیٹیوٹ کے اساتذہ کی وین پر حملہ کیا گیا، جس میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد مارے گئے۔ جامعہ کراچی میں ہونے والے خودکش دھماکے کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار سمیت چار افراد زخمی بھی ہوئے۔ اس واقعے کی ذمہ داری علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی یا بی ایل اے کے مجید بریگیڈ نے قبول کی ہے اور خودکش بمبار کی شناخت شاران بلوچ کے نام سے کروائی ہے جو کہ دو بچوں کی ماں تھی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بھی بلوچ لبریشن آرمی نے ہی قبول کی تھی۔ بلوچ علیحدگی پسند ماضی میں بھی چینی حکومت کو خبردار کر چکے ہیں کیونکہ ان کے مطابق ’سی پیک بلوچ سرزمین اور اس کے قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے کا منصوبہ ہے اور اگر اس منصوبے کو ترک نہیں کیا جاتا تو انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔‘

پاکستان میں حالیہ برسوں میں ہونے والے چند بڑے حملے پاک چین اقتصادی راہداری پراجیکٹ یا سی پیک کے آغاز کے بعد کیے گئے۔ بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں مئی 2004 میں بھی چینی انجنیئرز اور ٹیکنیشنز کی ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ یہ واقعہ کراچی سے سات سو کلومیٹر دور 3 مئی 2004 کو تب پیش آیا جب 12 چینی انجنیئرز اور ٹیکنیشنز کی گاڑی کو ایک ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے اڑا دیا گیا۔ اس حملے میں تین چینی انجنیئرز ہلاک ہوئے تھے۔ اسکے بعد کراچی میں واقع چینی قونصل خانے کے باہر 23 جولائی 2012 کو ایک بم دھماکہ کیا گیا تھا،تاہم اس حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔

بعد ازاں 30 مئی 2016 کو کراچی کے علاقے گلشن حدید میں چینی انجنیئر کی گاڑی کو ریمورٹ کنٹرول بم دھماکے سے نشانہ بنایا گیاتھا۔ اس حملے میں چینی شہری اور ان کے ڈرائیور کو معمولی زخم آئے تھے، لیکن اس حملے کی ذمہ داری ’سندھودیش ریوولیشنری پارٹی‘ نامی گروپ نے قبول کی تھی۔

کراچی میں چینی شہریوں کو نشانہ بنانے کی ایک اور کوشش نومبر 2018 میں تب کی گئی جب چینی قونصل خانے پر حملہ کیا گیا۔ یہ حملہ 23 نومبر 2018 کو ہوا تھا، جو پولیس کے مطابق ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اس حملے کی کوشش میں سات افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں تین حملہ آور، دو عام شہری اور دو پولیس اہلکار شامل تھے۔کراچی کے علاقے کلفٹن میں واقع چینی قونصل خانے پر حملے کی ذمہ داری بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

اسکے بعد خیبر پختونخوا کے ضلع کوہستان میں داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر کام کرنے والے انجنیئرز کی ایک بس کو 14 جولائی 2021 کو نشانہ بنایا گیا تھا جس میں 9 چینی شہریوں سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

کراچی حملے میں خاتون کو استعمال کرنے کا اصل مقصد کیا تھا؟

اسکے بعد 28 جولائی 2021 کو نامعلوم افراد کی فائرنگ سے کراچی میں ایک چینی شہری حملے میں زخمی ہو گیا تھا۔ چینی شہری پر فائرنگ کا یہ واقعہ سائٹ ایریا میں گلبائی پل کے نیچے پیش آیا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق چہرے پر ماسک پہنے موٹر سائیکل سوار نامعلوم مسلح افراد نے گاڑی میں ڈرائیور کے ساتھ جانے والے دو چینی شہریوں پر فائر کھول دیا تھا جس کے نتیجے میں ایک چینی زخمی ہو گیا تھا۔

بعد ازاں بلوچستان کے شہر گوادر میں 19 اگست 2021 کو چینی انجنیئرز کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں چینیوں پر خود کش حملہ کرنے والا ایران سے پاکستان آیا تھا۔ اس حملے میں دو بچے ہلاک اور دو زخمی ہوئے تھے۔ اس حملہ آور کا تعلق کسی بلوچ عسکریات پسند گروپ سے ثابت نہیں ہو پایا تھا۔

Why are Baloch nationalists targeting Chinese? video

Related Articles

Back to top button