ملالہ یوسفزئی کا برطانیہ میں تعلیم کے دوران نشہ کرنے کا اعتراف

 

 

 

 

طالبان کے حملے کا نشانہ بننے کے بعد پاکستان سے برطانیہ منتقل ہونے والی نوبیل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے اب یہ ہوشربا انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی میں دوران تعلیم نشہ شروع کر دیا تھا۔ امن کی نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن نے اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے دوران تعلیم کئی مرتبہ نشہ کیا لیکن ایک بار ان کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی۔

 

برطانوی اخبار دی گارجین کے مطابق ملالہ یوسف زئی نے اپنی سوانح عمری میں منشیات استعمال کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ ملالہ کی سوانح عمری ’فائنڈنگ مائی وے‘ 21 اکتوبر 2025 کو سامنے آئے گی، اس کتاب ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں اور چیلنجز کو بیان کرتی ہے، کتاب میں انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف واقعات بھی بیان کیے ہیں۔ ملالہ یوسفزئی نے اپنے آکسفورڈ یونیورسٹی کے دنوں کے ایک واقعے کا بھی ذکر کیا ہے، جس میں وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح ویڈ (weed) نامی نشہ استعمال کرنے سے ان کی طالبان کے ہاتھوں گولی لگنے والے واقعے کی خوفناک یادیں واپس آنے لگیں۔

 

ملالہ یوسفزئی لکھتی ہیں کہ ویڈ کا نشہ کرنے کے بعد وہ شدید خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوگئیں، انہیں شدید الٹیاں آئیں، ان کا جسم لرزنے لگا، اور وہ اس قدر صدمے میں چلے گئیں کہ ان سے چلا بھی نہیں جا رہا تھا۔ وہ لکھتی ہیں کہ ایک رات وہ اپنی یونیورسٹی کی دوست انیسہ کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک پرانے شیڈ میں گئیں، جہاں ان کی سہیلی انیسہ دو لڑکوں کے ساتھ بیٹھی تھی اور وہ نشہ کر رہے تھے۔ ملالہ یوسف زئی لکھتی ہیں کہ وہاں لڑکوں اور لڑکی کے سامنے میز پر ایک عجیب سا شیشے کا آلہ رکھا تھا، جسے انہوں نے پہلے نہیں دیکھا تھا، لڑکے کی جانب سے اسے استعمال کرنے کے بعد انہوں نے بھی اسے استعمال کیا۔

وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے پہلے بھی بھنگ نام کا نشہ آزما رکھا تھا لیکن اس کا ان پر کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔ لیکن اس روز ویڈ کے استعمال نے انہیں ہلاکر رکھ دیا، وہ ماضی میں پہنچ گئیں، انہیں محسوس ہوا کہ وہ سوات پہنچ گئی ہوں اور ان پر حملہ ہو گیا ہو۔

 

نوبیل انعام یافتہ کارکن ملالہ لکھتی ہیں کہ پہلی بار ویڈ کا نشہ کرتے وقت جب انہوں نے کش کھینچا، تو وہ زور زور سے کھانسنے لگیں، کچھ دیر بعد انہوں نے دوبارہ کش کینی کی کوشش کی اور اس مرتبہ وہ کھانسے بغیر دھواں اندر لے گئیں۔ ملالہ یوسف زئی لکھتی ہیں کہ نشہ کرنے کے بعد ان کے ساتھ عجیب تجربات ہونے لگے، ان کے دماغ نے وقت کا حساب کھو دیا، ان کا ذہن ماؤف ہوگیا۔

 

انہوں نے لکھا ہے کہ جب وہ اپنے ہاسٹل کی طرف واپس جانے لگیں تو ان کے پاؤں بھاری ہو گئے، انہیں چلنے میں دشواری ہوئی اور ان کے پٹھوں نے کام کرنا بند کر دیا، وہ اپنے جسم کو حرکت دینے کی کوشش کرتی رہیں لیکن اس نے جواب دینا بند کردیا تھا، پھر اچانک انہیں شدید خوف نے گھیر لیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس کے بعد وہ اسی کیفیت میں چلی گئیں جو انہوں نے 15 سال کی عمر میں طالبان کے حملے کے بعد کوما میں محسوس کی تھی، ان کے دماغ میں وہ خوفناک مناظر واپس آ گئے، ان کی سکول بس، ایک بندوق بردار شخص، ہر طرف خون بکھرے تھا اور انہیں سٹریچر پر ہجوم کے درمیان لے جایا جا رہا تھا۔

ملالہ یوسف زئی نے لکھا ہے کہ وہ اس وقت اپنے دماغ میں چلاتی رہیں لیکن ان کا جسم حرکت کرنے سے قاصر تھا۔

 

انہوں نے اپنی سوانح عمری میں لکھا ہے کہ انہیں اپنی دوست انیسہ اٹھاکر ہاسٹل کے کمرے میں لے گئیں، جہاں وہ فرش پر گر گئیں، انہیں سانس لینے میں دشواری ہو رہی تھی اور وہ مسلسل خوفزدہ تھیں، انہیں ایسا لگا کہ ان کے گلے میں کچھ پھنس گیا ہے، ٹھیک اسی طرح جیسے کوما کے دوران ہسپتال میں ان کے گلے میں ٹیوب لگائی گئی تھی۔ وہ لکھتی ہیں کہ وہ کچھ دیر بعد باتھ روم میں گئیں اور قے کر دی، وہ جیسے ہی آنکھیں بند کرتیں، ان کے سامنے خوفناک مناظر دوبارہ چلنا شروع ہو جاتے، وہ چیخنے لگتیں، وہ خوف کے مارے پوری رات سو نہ پائیں۔

 

ملالہ یوسف زئی نے لکھا ہے کہ رات بھر وہ ڈرتی رہیں کہ اگر وہ سو گئیں تو شاید مر جائیں گی، وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھنے کی کوشش کرتی رہیں، خود کو جھٹکے دیتیں اور اپنے چہرے پر تھپڑ مارتیں تاکہ جاگتی رہیں۔ صبح تک وہ کچھ بہتر ہوئیں، لیکن وہ چند دن تک تک صدمے میں رہیں۔ تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ انہیں نشہ کرنے کی چل کیوں پڑی تھی جب کہ وہ برطانیہ سے پاکستان اعلی تعلیم کے لیے منتقل ہوئی تھیں۔

 

Back to top button

Adblock Detected

Please disable the adblocker to support us!