کنفیوژن کا شکار مولانا فضل کی سیاسی بقا خطرے میں

 

 

پاکستانی سیاست کے جادوگر قرار دیے جانے والے جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اب اپنی سیاسی بقا کی جنگ لڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ سیاسی میدان میں معروف بلے باز بابر اعظم کی طرح ’’آؤٹ آف فارم‘‘ نظر آ رہے ہیں۔ جس طرح بابر اعظم آؤٹ آف فارم ہونے کی وجہ سے آج کل اچھے شاٹس کھیلنے سے قاصر ہیں، ویسے ہی مولانا بھی مؤثر بیٹنگ نہیں کر پا رہے۔ ان کے بیانات کھوکھلے ہیں اور ان کے سیاسی فیصلے غیر مبہم اور کنفیوژڈ ہیں۔

معروف لکھاری اور تجزیہ کار عامر خاکوانی اپنی تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 2024 کے عام انتخابات مولانا فضل الرحمان کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں تھے۔ 2024 کے انتخابات میں خیبر پختونخوا میں جے یو آئی (ف) کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ مولانا اپنی آبائی نشست تک سے ہار گئے، اور ان کی پارٹی کے قریبی رہنما بھی ناکامی سے دوچار ہوئے۔ مولانا بلوچستان سے ایک محفوظ سیٹ پر کامیاب تو ہوگئے، مگر وہاں بھی ان کے سیاسی خواب پورے نہ ہو سکے۔ انہیں وزارتِ اعلیٰ کی امید تھی، لیکن آصف زرداری نے سیاسی چال چل کر بلوچستان حکومت اور صدرات دونوں اپنے نام کر لیے۔ خیال رہے کہ مولانا ماضی میں صدارت کے منصب پر فائز ہونے کی خواہش بھی رکھتے تھے۔ چنانچہ کرسی کی دوڑ سے باہر ہونے کے بعد سے سے مولانا فضل سخت سیاسی مایوسی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

عامر خاکوانی کار تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کے تجربہ کار رہنماؤں میں شمار ہونے والے مولانا فضل الرحمان نے کئی دہائیوں تک مذہبی اور پارلیمانی سیاست میں اپنا مقام برقرار رکھا۔ مگر حالیہ برسوں میں ان کی گرتی ہوئی مقبولیت اور سیاسی ساکھ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ وہ شدید سیاسی الجھن اور بے سمتی کا شکار ہیں۔ ان کی سیاست کی سمت واضح نہیں رہی، اور وہ بظاہر محض ردِ عمل کی سیاست پر اتر آئے ہیں۔

عامر خاکوانی کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے سیاسی تنہائی سے نکلنے اور اپنی گرتی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کے لیے افغان طالبان کا بیانیے اپنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ حال ہی میں ان کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انہوں نے افغانستان کی پاکستان دشمن طالبان حکومت کی غیر ضروری حمایت کی اور پاکستان کو طعنہ دیا کہ اس نے امریکہ کو فضائی اڈے فراہم کیے۔ یہ بیان حقیقت سے متصادم بھی تھا اور پاکستان کے اس کردار کو نظرانداز کرنے کے مترادف بھی، جس نے بیس برس تک امریکی دباؤ برداشت کرتے ہوئے طالبان کی پشت پناہی کی اور 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کو پاکستان میں سر چھپانے کی جگہ دی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولانا سیاسی مقاصد کے لیے طالبان کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ مذہبی طبقے میں اپنی گرتی مقبولیت کو کسی حد تک بحال کیا جا سکے۔

لیکن بظاہر یہ کارڈ بھی مولانا کی سیاست بچانے میں کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا۔ وزیراعلی مریم نواز کی پنجاب حکومت نے حال ہی میں صوبے کی 65 ہزار مساجد کے اماموں کے لیے 25 ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ کا اعلان کیا۔ یہ اقدام مذہبی طبقے کے معاشی استحکام کی طرف ایک اہم پیش رفت تھا، جس پر مختلف مکاتبِ فکر کے علما نے خوشی کا اظہار کیا۔ مگر مولانا فضل الرحمان نے اسے حکومت کی جانب سے ’’علما کے ایمان خریدنے‘‘ کی کوشش قرار دے دیا۔ یہ بیان مولانا کی زمینی حقائق سے لاتعلقی ظاہر کرتا ہے۔ مساجد کے اماموں کے مسائل اور ان کی محدود آمدنی سب پر عیاں ہے۔ پنجاب حکومت کا یہ فیصلہ اگر ان کی معاشی مشکلات کم کرتا ہے تو اسے سیاسی مفاد پرستی سے تعبیر کرنا سراسر ناانصافی قرار دیا جا رہا ہے۔

عامر خاکوانی کے بقول مولانا فضل الرحمن کے قریبی حلقے تسلیم کرتے ہیں کہ وہ آہستہ آہستہ عوام سے کٹ چکے ہیں۔ ان کے گرد اب وہ کارکن یا دینی طبقات موجود نہیں ہیں جو کبھی ان کی طاقت ہوا کرتے تھے، ناقدین کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو ایسے لوگوں نے گھیرا ڈال لیا ہے جنہیں عوامی مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا کے بیانات اور فیصلے عوامی نبض سے مطابقت نہیں رکھتے۔ مولانا فضل الرحمان کی حالیہ سیاسی حکمتِ عملی، چاہے وہ حکومت کی ہر پالیسی کی مخالفت ہو یا طالبان کی بے جا حمایت، ان کی سیاسی بقا کی جدوجہد کا حصہ ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ان کا یہ طرزِ سیاست نہ ان کی کھوئی ہوئی مقبولیت لوٹا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں قومی سیاست میں مرکزی کردار واپس دلا سکتا ہے۔ ایسے میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا کو چاہیے کہ وہ سستی شہرت کے حصول کے لیے پرو طالبان پوزیشن لینے سے گریز کریں، اپنی جماعت کی تنظیم نو کریں، اور عوامی مسائل کے حقیقی نمائندہ بن کر ابھریں۔ بصورتِ دیگر ان کی سیاست ماضی کی ایک یاد بن جائے گی۔

Back to top button