پاکستان کی طالبان نواز سٹریٹیجک پالیسی کیسے ناکام ہوئی؟

پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی کئی دہائیوں پر محیط طالبان نواز افغان پالیسی آج مکمل طور پر ناکام دکھائی دے رہی ہے جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ بھارت جو کل تک افغان طالبان کو پاکستانی پراکسی قرار دیتا تھا آج انہی طالبان کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔
معروف تجزیہ کار رؤف کلاسرا اپنی تحریر میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس طالبان قیادت کو پاکستان نے برسوں تک اپنے ملک میں پناہ دی اور انکی خاطر امریکہ کو ناراض کیا، آج وہی طالبان قیادت بھارت کے ساتھ کھڑی ہو کر پاکستان کو سفارتی اور سیکیورٹی محاذ پر چیلنج کر رہی ہے۔ پاکستان کی دوسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت برسر اقتدار انے کے بعد سے تحریک طالبان کے دہشت گرد نیٹ ورک کو پاکستان کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت دے رہی ہے۔
رووف کلاسرا بتاتے ہیں کہ جنرل ضیاء الحق کے دور سے لے کر بینظیر بھٹو تک، پاکستان نے افغان مجاہدین اور بعد میں طالبان کو سٹریٹیجک اثاثے سمجھ کر سپورٹ کیا۔ اس پالیسی کا مقصد تھا افغانستان میں پشتون قیادت کو اقتدار دلانا تاکہ پاکستان کو "تزویراتی گہرائی” یا سٹریٹیجک ڈیپتھ حاصل ہو سکے۔ اس پالیسی کے تحت افغان طالبان کو پاکستان میں سیف ہاؤسز، مالی امداد اور رہائش فراہم کی گئی اور ان کے مفادات کے فروغ کے لیے امریکہ کو ناراض کیا گیا۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ پاکستان کی طاقتور فوجی اور انٹیلیجنس اسٹیبلشمنٹ نے سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کے تحت افغانستان کی پاکستان مخالف سرگرمیوں کے جواب میں افغان طالب علموں کو پراکسی جنگ کے لیے تیار کیا۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ اس سے پہلے جب افغان فیصلہ سازوں نے خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں پاکستان مخالف علیحدگی پسند تحریکوں کو سپورٹ کیا، تو پاکستان نے افغانستان میں مداخلت شروع کر دی تاکہ وہاں پر پاکستان نواز حکومت برسر اقتدار لائی جا سکے۔ 1979 میں افغانستان پر روسی حملے نے جنرل ضیاء کو وہاں گھسنے کا ایک موقع فراہم کیا۔ پاکستان نے امریکی فنڈنگ کے ساتھ افغان جہاد کی قیادت سنبھالی۔ مگر یہ جہاد بعد میں مذہبی انتہا پسندی میں بدل گیا، جس نے پاکستانی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ کلاسرا کے مطابق پاکستان اج بھی اس جہاد کے منفی اثرات بھگت رہا ہے۔
معروف تجزیہ کار یاد دلاتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف نے ایک برطانوی اخبار کو انٹرویو میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے طالبان کو پاکستان میں پناہ دی۔ انہوں نے بتایا کہ جب افغانستان پر امریکی حملے کے بعد افغان طالبان فرار ہوئے تو انہیں پاکستان میں محفوظ ٹھکانوں پر رکھا گیا۔ اسکے علاوہ ان کے ہزاروں خاندان کوئٹہ، پشاور، کراچی اور اسلام آباد میں آباد کیے گئے۔
تا ہم سب سے افسوسناک ووت وہ تھا جب پاکستانی فیصلہ سازوں نے شر پسند جنگجوؤں کو "گڈ طالبان” کا لقب دے کر پاکستانی قوم کو گمراہ کیا۔ حد تو یہ تھی کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ نے افغان طالبان کے ساتھ مل کر امریکی افواج کو افغانستان سے نکلنے پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ تھی کہ 2021 میں کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے انہیں مبارکباد دی، اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید فوراً کابل پہنچ گے۔ مگر جلد ہی یہ "اچھے طالبان” ٹی ٹی پی کی صورت میں پاکستان کے خلاف سرگرم ہو گئے اور اب حالات یہ ہیں کہ انہیں فتنہ الخوارج قرار دیا جاتا ہے۔
رؤف کلاسرا کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کی قیادت نے افغان طالبان کی امریکی افواج کے خلاف کامیابی کو بنیاد بنا کر یہ سوچنا شروع کر دیا کہ وہ بھی پاکستان میں اقتدار حاصل کر سکتے ہیں لہذا انہوں نے ملک بھر میں دہشت گرد حملے تیز تر کر دیے اور ہزاروں افراد کو نشانہ بنایا۔ سوات اور مالاکنڈ میں دوبارہ طالبان کی واپسی ہوئی، اور پاکستان کو اپنے ماضی کے جہادی اثاثوں کے خلاف ایک نئی جنگ کا سامنا کرنا پڑا۔
پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی کی ناکامی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ آج افغان طالبان حکومت کے وزیر خارجہ بھارتی وزیر خارجہ کے ساتھ کھڑے ہو کر پاکستان مخالف پریس کانفرنس کرتے ہیں۔ رؤف کلاسرا لکھتے ہیں کہ "دکھ اٹھائے فاختہ بی، انڈے کھائیں کوے” یعنی محنت پاکستان نے کی، لیکن فائدہ بھارت نے اٹھا لیا۔ ان کے مطابق پاکستان نے افغانستان کو اپنی دفاعی حکمت عملی کا مرکز بنایا، مگر نتیجہ خانہ جنگی، دہشتگردی، اور ایک دشمنانہ افغان حکومت کی صورت میں نکلا۔ روس، امریکہ اور یورپ تو نکل گئے، مگر پاکستان آج بھی اس دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔
رؤف کلاسرا ایک تلخ سوال اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ”افغان طالبان سے پاکستان کو کیا ملا؟” جواب واضح ہے: ایک ناکام پالیسی، ایک انتہا پسند معاشرہ، اور ایک دشمن جو کبھی ہمارا جگری دوست تھا۔
