سائبر کرائم ایجنسی کے لاپتہ افسران کرپشن پرگرفتارنکلے

آن لائن جوا ایپس کی تشہیر کے خلاف جاری مہم کے دوران پے در پے غائب ہونے والے نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے لاپتہ آفیسرز کا معمہ حل ہو گیا۔ ایف آئی اے نے اختیارات کے ناجائز استعمال اور رشوت کے الزام میں گرفتار نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے ایڈیشنل ڈائریکٹر چوہدری سرفراز سمیت چار لاپتہ افسران کی گرفتاری ظاہر کردی۔
خیال رہے کہ رشوت ستانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی مسلسل شکایات پر عسکری ایجنسیوں نے نیشنل سائبر انوسٹی گیشن ایجنسی کے افسران کو تحویل میں لیا تھا۔ تحویل میں لئے جانے والے این سی سی آئی اے کے آفیسرز میں ایڈیشنل ڈائریکٹر چودھری سرفراز ، انچارج لاہور زوار حسین ، اسسٹنٹ ڈائریکٹر شعیب ریاض اور ایس ایچ او علی رضا کے علاوہ ایک پرائیویٹ شخص بھی شامل تھا۔ ان افسران کی گمشدگی بارے بڑا واویلا مچایا جا رہا تھا۔ تاہم اب ذرائع نے دعویٰ کیا ہے کہ نیشنل سائبر کرائم ایجنسی کے افسران کو ٹھوس شواہد کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا تھا اور اب تحقیقات کو مکمل کرنے کے بعد ہی ان کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔
ذرائع کے مطابق این سی سی آئی اے افسران پر آن لائن جوا ایپس کی تشہیر کے الزام پر ایف آئی اے کے ہاتھوں گرفتار کئے جانے والے معروف یوٹیوبر ڈکی بھائی سے ڈیڑھ کروڑ روپے رشوت لینے کے علاوہ مختلف یوٹیوبرز سے کروڑوں روپے اینٹھنے کے الزمات ہیں۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں آن لائن جوا، سٹے بازی اور غیر قانونی ڈیجیٹل سرگرمیوں کے خلاف شروع کی جانے والی اب تک کی سب سے بڑی کارروائی نے ایک غیر متوقع اور سنسنی خیز موڑ اس وقت لیا جب این سی سی آئی اے میں رشوت خور نیٹ ورک آئی ایس آئی کے نشانے پر آ گیا۔ جس کے بعد اب تک نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے پانچ ڈائریکٹرز کو معطل کرنے کے ساتھ ساتھ 4 آفیسرز کو مزید تفتیش کے لئے حراست میں لیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق حساس ادارے کو آن لائن جوئے اور سٹے کی پروموشن میں ملوث یو ٹیوبرز ، ٹک ٹاکرز کے علاوہ غیر قانونی کال سینٹرز اور دیگر قسم کے جرائم میں ملوث ملزمان کو ریلیف دینے اور ان کی سرپرستی کرکے کروڑوں روپے کی ماہانہ رشوت جمع کرنے والے این سی سی آئی اے کے نیٹ ورک کے حوالے سے مسلسل رپورٹس مل رہی تھیں جس کے بعد وزیر داخلہ محسن نقوی کی ہدایات اور اعلیٰ حکام کی منظوری کے بعد ایسے کرپٹ عناصر کو مختلف دفاتر سے حراست میں لئے جانے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ جس کے بعد اب تک 15سے زائد افسران اور اہلکار اٹھائے جا چکے ہیں جن سے پوچھ گچھ کے بعد 4 افسران کو باقاعدہ حراست میں لے لیا جا چکا ہے۔ سب سے زیادہ کرپٹ عناصر این سی سی آئی اے کے لاہور کے دفتر میں پائے گئے جہاں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پورا دفتر ہی غیر فعال ہو چکا ہے، بہت سے افسران یا تو زیر حراست میں ہیں یا پھر انہوں نے چھٹیاں لے لی ہیں۔ جبکہ کئی افسر بغیر بتائے ہی ڈیوٹیوں سے غائب ہوگئے ہیں۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق ڈکی کیس کے مرکزی تفتیشی افسر شعیب ریاض پر الزام ہے کہ انہوں نے ڈکی کے وکیل کے ذریعے ان کی فیملی سے بھاری رقم طلب کی۔ معاملہ اْس وقت سنگین صورت اختیار کرگیا جب ملٹری انٹیلی جنس نے خفیہ نگرانی کے دوران ٹیلی فونک شواہد اور پیغامات اکٹھے کیے جن سے رشوت طلبی کے ناقابلِ تردید شواہد ملے۔ ان شواہد کی بنیاد پر ایم آئی نے اچانک چھاپہ مار کر پانچوں افسران کو حراست میں لے لیا۔ ذرائع کے مطابق، کارروائی وزیراعظم آفس کے براہِ راست احکامات پر عمل میں لائی گئی تاکہ سائبر کرائم ایجنسی کے اندر بڑھتی بدعنوانی پر قابو پایا جا سکے۔
دوسری جانب سینئر صحافی منصور علی خان نے دعویٰ کیا ہے کہ ڈکی بھائی کیس کے تفتیشی آفیسر ایڈیشنل ڈائریکٹر شعیب ریاض نے مبینہ طور پر ڈکی بھائی کے وکیل سے رابطہ کیا اور انہیں کہا کہ ڈکی بھائی بہت مشکل میں پھنسے ہوئے ہیں اور اگر آپ ان کو کوئی ریلیف دلوانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے آپ کو ڈیڑھ کروڑ کی رقم دینا ہو گی۔ اس ضمن میں ڈکی بھائی کے خاندان سے رابطہ کر کے ایڈیشنل ڈائریکٹر شعیب ریاض کے فرنٹ مین کا رابطہ نمبر دیا جاتا ہے کہ تمام رقم ان کو دی جائے گی۔ اس فرنٹ مین کا تعلق فیصل آباد سے تھا جس کو ڈکی بھائی کے خاندان نے ڈیڑھ کروڑ کی رقم دی لیکن اس کے باوجود بھی ان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔
منصور علی خان نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے مزید کہا کہ اس سارے معاملے میں ایڈیشنل ڈائریکٹر سرفراز چودھری بھی کہتے رہے ہیں کہ میں جو کام کر رہا ہوں اس میں ملٹری انٹیلی جنس مجھے سپورٹ کر رہی ہے اور ایم آئی کی پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ جس کے بعد ایم آئی نے اس معاملے کو دیکھنا شروع کیا تو سرفراز چوہدری ہی این سی سی آئی اے میں چلنے والے وسیع نیٹ ورک کا سرغنہ نکلا۔ جب سرفراز چودھری کو حراست میں لے کر روایتی طریقے سے تفتیش کی گئی تو انھوں نے طوطے کی طرح سب کچھ اگل ڈالا جس کے بعد باقی آفیسرز کو بھی حراست میں لے لیا گیا جبکہ اس نیٹ ورک میں شامل بہت سے دیگر افسران کی گرفتاریوں کیلئے چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔
ذرائع کے مطابق اس نیٹ ورک کا طریقہ واردات یہ تھا کہ یہ پہلے کیسز پکڑتے تھےاس کے بعد پیسوں کے عوض ڈیل کر لی جاتی تھی اور ملزمان کو جائے وردات پر ہی بری کر دیا جاتا تھا۔ اس حوالے سے کی جانے والی تحقیقات میں نیشنل کرائم ایجنسی میں پنجاب کے معاملات دیکھنے والے ڈپٹی ڈائریکٹرعثمان کا نام سامنے آیا جس کے بعد کال سینٹرز کے معاملات دیکھنے والے انسپکٹر عثمان بھی ان کارروائیوں میں ملوث پائے گئے جو حقیقت میں کال سینٹرز میں ہونے والے قومی اور بین الاقوامی فراڈز کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔ اس حوالے سے سامنے آیا کہ یہ دونوں مل کر نہ صرف ریڈ مارتے تھے بلکہ بعد میں پیسوں کا لین دین کر کے ملزمان کو موقع پر ہی چھوڑ بھی دیتے تھے۔ ذارئع کے مطابق نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی یعنی این سی سی آئی اے کے زیر حراست چاروں افسران نے اعتراف جرم کر لیا ہےاور اپنے بیانات میں واضح کیا ہے کہ وہ ایجنسی میں ایک مربوط نیٹ ورک چلاتے تھے اور انھیں سرفراز چوہدری کی جانب سے مکمل پشت پناہی حاصل تھی
