جنرل فیض حمید کو سزا سنائے جانے کے بعد عمران کا کیا بنے گا؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس نے کہا ہے کہ عمران خان کے دست راست لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو بھی جلد کورٹ مارشل کے نتیجے میں سزا ہونے جا رہی ہے جسکے بعد کپتان اور انکی جماعت کے حالات اور بھی خراب ہو جائیں گے۔ ایسے میں اہم ترین سوال یہ ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہے خصوصاً جب شہباز شریف کی اتحادی حکومت خان کے بنائے ہوئے ہائبرڈ نظام کے فارمولے پر فوج کے شانہ بشانہ چل رہی ہے؟
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں مظہر عباس کہتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ’پھانسی‘ لگتے وقت بھی تمام سروے کے مطابق ملک کے مقبول ترین لیڈر تھے، لیکن کیا وجہ تھی کہ پارٹی قیادت اُنکی رہائی میں نہ صرف نا کام رہی بلکہ بعض سینئر ترین رہنما پسِ پردہ جنرل ضیاء سے مل گئے تھے۔ لہٰذا مارشل لا لگنے سے لیکر بھٹو کے عدالتی قتل تک کارکنوں نے گرفتاریاں بھی دیں اور کوڑے بھی کھائے، پارٹی کی قیادت بھٹو کو یہی یقین دلاتی رہی کہ وہ بہت جلد رہا ہوجائیں گے، لہٰذا کوئی تحریک چلانے کی ضرورت نہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل ضیا نے بھٹو کو ناحق پھانسی پر چڑھا دیا۔ اس سزا کو اب سپریم کورٹ آف پاکستان ایک جوڈیشل مرڈر قرار دے چکی ہے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ بھٹو کی پھانسی میں تب کی فوجی قیادت، عدلیہ اور بعض نام نہاد صحافیوں اور دانشوروں کے ساتھ بھٹو کے سیاسی مخالفین کی تائید بھی شامل تھی۔ اس واقعے کو 47 سال بیت جانے کے باوجود آج بھی بس کردار بدلے ہیں لیکن کہانی وہی ہے۔ ہائبرڈ نظام حکومت ہمیشہ سے ہماری سیاست میں موجود رہا ہے، ورنہ حقیقی جمہوریت نہ آجاتی۔ اب نہ تو حکومت توڑنے کے لیے آرٹیکل 58 دو بی کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی PCO کی۔ آئین میں 26 ویں ترمیم نے تمام مسائل حل کردیئے ہیں۔ موجودہ ہائبرڈ ’نظام‘ کی پیداوار شریف بھی ہیں اور عمران بھی۔ البتہ جو آج اِس سے فائدہ اُٹھارہے ہیں اُن کو ’تاریخ‘ سے سبق سیکھنا چاہئے۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ میں یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ آج عمران خان کے مولانا کوثر نیازی، رفیع رضا، مصطفی جتوئی، ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ کون ہیں اور اُنکے جے اے رحیم، ڈاکٹر مبشر حسن اور معراج محمد خان، کون ہیں، یہ فیصلہ تو خود عمران خان کو کرنا ہے کہ جن جن کو وہ پارٹی کے اعلیٰ ترین عہدوں پر لائے اُن میں سے کتنے مشکل وقت میں ان کے ساتھ کھڑے رہے۔ اب تو جیل میں بند ان کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بھی حکومت سے مذاکرات کے لیے خط لکھ مارا ہے۔ رہ گئی بات ریاستی جبر اور قید وبند کی تو یہ سیاست کا حصہ ہے ورنہ قربانی کے بغیر تو کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ سیاسی جوڑ توڑ اور لچک بھی سیاست کا حصہ ہیں لیکن عمران جس طاقت سے بات کرنا چاہتے وہ اُن سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ دوسری جانب تحریک انصاف کی حالت یہ ہے کہ اس کی ’احتجاجی تحریک‘ چل ہی نہیں پا رہی، اس کی بنیادی وجہ پارٹی کے اندرونی اختلافات، قیادت کا غیر سیاسی مزاج اور فوج کی ’ناں‘ ہے۔
ایسے میں عمران خان اور پارٹی کے پاس کونسی آپشن ہے۔ حال ہی میں پی ٹی آئی کی خصوصی سیٹوں کے بارے میں سپریم کورٹ کی آئینی عدالت کا فیصلہ واضح اشارہ ہے کہ آنے والےدنوں میں اور کونسے اہم فیصلے آ سکتے ہیں جو عمران کی واپسی کو مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بنا دینگے۔ اب تحریک چلے تو کیسے چلے جب خود خان اپنی ہی نامزد کردہ ٹیم پر اعتماد نہیں کر رہا۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تحریک چل پارہی ہےاور نہ ہی بڑا اپوزیشن کا اتحاد بن پارہا ہے۔ ایسے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ آنیوالا وقت خان صاحب اور پارٹی کیلئے کٹھن ہوگا۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ میں ہونیوالی اور آنیوالی تبدیلیاں خان صاحب کی 190- ملین پاؤنڈ کیس سزا پر مہر لگا سکتی ہیں۔ اسی طرح 9 مئی کے حملوں میں جنرل فیض حمید کو آئندہ چند ہفتوں میں بڑی سزا مل سکتی ہے جس کے بعد خان اور ان کے ساتھیوں کیلئے مشکلات میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ لہٰذا اس وقت عدالتی میدان کے راستے میں تو کانٹے ہی کانٹے نظر آ رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں یقینی طور پر اِس وقت ’ہائبرڈ نظام‘ اپنے عروج پر ہے اور وزیر اعظم شہباز شریف اور فوج کے مابین مضبوط شراکت داری نظر آتی ہے، یہاں تک کہ خود نواز شریف نے شہباز شریف کا پرو اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بہترین قرار دے دیا ہے۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ رہ گئی بات خان صاحب کی تو سیاسی میدان میں بظاہر وہ تنہا نظر آ رہے ہیں اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد نہیں بن پارہا۔ مولانا فضل الرحمان اور حافط نعیم الرحمان دونوں کو پی ٹی آئی یا خان پر اعتماد نہیں ورنہ صرف ان تین جماعتوں کا اتحاد بھی خاصی ہلچل مچا سکتا تھا۔ ا
مذاکرات کی تجویز دینے والے پی ٹی آئی رہنما کس خوف کا شکار ہیں ؟
دوسری جانب اس وقت تحریک انصاف میں صرف کنفیوژن ہی کنفیوژن ہے، ایسے میں تحریکیں نہیں چلا کرتیں۔ خان صاحب کے پاس فیصلے کرنے کا وقت زیادہ نہیں۔ کرکٹر عمران خان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ شاذو نادر ہی فاسٹ بولنگ کراتے وقت ’نوبال‘ کراتا تھا۔ خان کپتان بنا تو اسے سلیکٹرز پر زیادہ اعتماد نہیں تھا لہٰذا وہ اپنی پسند کی ٹیم منتخب کرواتا تھا۔ سلیکٹرز بس دستخط کر دیتے تھے۔ عمران خان کو یہ بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے نیوٹرل ایمپائر کا آئیڈیا دیا اور آئی سی سی نے اسے مانا۔ وہ ہمیشہ کہتا کہ ’’نواز شریف اپنے ایمپائروں کے ذریعے میچ جیتتا تھا‘‘ مگر جب وہ خود سیاست میں آیا تو ہر بات پر’یوٹرن‘ لے لیا۔ خان غلطی پر غلطی کرتا چلا گیا چاہے، وہ فوجی آمر جنرل مشرف کی حمایت کرنا ہو، 2002 میں جنرل مشرف کو ریفرنڈم میں ووٹ دینا ہو، 2024 کے دھاندلی زدہ الیکشن میں وزیر اعظم بننا ہو یا پھر جنرل باجوہ اور جنرل فیض کی کٹھ پتلی بننا ہو۔
مظہر عباس کہتے ہیں کہ یہ سب عمران خان کے کروائے گی ’نوبال‘ تھیں کیونکہ اتنا ذیادہ عوامی پذیرائی کے بعد آپکا اپنی سیاست پر کھڑا رہنا ہی اصل کارنامہ ہوتا ہے۔ عمران کی کھیل اور سیاست کے میدانوں میں شہرت ایک ’فائٹر‘ کی رہی۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی جنگ جاری رکھتے ہیں یا نہیں؟ یہ بھی دیکھنا ہے کہ خان صاحب کی اگلی بال صحیح جگہ پڑتی ہے یا پھر ’نو بال‘ قرار پاتی یے۔ رہ گئی بات ’شریفوں‘ کی تو وہ ایک ’ہائبرڈ نظام‘ سے دوسرے ہائبرڈ نظام کاحصہ بن گئے ہیں۔