نواز شریف کی عمران سے جیل میں ملاقات کا امکان کیوں نہیں ؟

معروف اینکر پرسن اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا جیل جا کر بانی پی ٹی آئی عمران خان سے ملاقات کرنے کا کوئی امکان نہیں۔ یہ ایک خواب تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا ممکن نہیں ہے ۔ دنیا میں مکافات عمل کے تحت جیسا کرو گے ویسا بھرو کا اصول چلتا ہے اور فرشتے زمین پر نہیں بلکہ آسمانوں میں ہوتے ہیں۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ نون لیگ کے قائد نواز شریف کے لیے شیر اور عمران خان کیلئے چیتے کا استعارہ استعمال کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ چیتے کے لیے معافی کا راستہ تب کھلے گا جب اسکی جماعت سیاسی جنگ میں شکست کے بعد تھک ہار جائے گی۔ پھر طاقتور حاکم وقت اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لے گا، کیونکہ تب یہ کام آج کی نسبت بہت آسان ہو گا۔

آئیے سہیل وڑائچ کا مکمل تجزیہ سنتے ہیں: وہ لکھتے ہیں کہ شیر کی کچھار الگ ہے اور چیتے کی شکار گاہ الگ۔ دونوں کی ملاقات یا آمنا سامنا کم ہی ہوتا ہے۔ شیر بوڑھا ہو گیا ہے اور جنگل کیلئے بہت کچھ کرنے کے باوجود وہ تاریخ میں جتنا بڑا نام پیدا کرنا چاہتا تھا وہ جنگل کی اندرونی سیاست کی وجہ سے نہیں کر سکا۔شیر ہند اور سندھ کے جنگلوں میں امن قائم کر کے نئی تاریخ رقم کرنا چاہتا تھا، لیکن جنرل مشرف اور جنرل راحیل شریف آڑے آگئے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کے ذریعے جمہوری نظام کو مضبوط تر کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس کا راستہ روکنے کے لیے جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے اپنے چیتے کو میدان میں اتارا تا کہ اس میثاق کو سبوتاژ کیا جا سکے جس کے ذریعے پاکستان کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اکٹھی ہونے جا رہی تھی۔

اگرچہ بوڑھے شیر کے خاندان کو اقتدار تو ملا ہوا ہے لیخن اسے اپنے خواب پورے نہ ہونے کی کسک تو ضرور ہو گی۔ اب وہ جنگل کی روزمرہ سیاست سے الگ تھلگ خاندانی معاملات اور وراثتی ملکیت کو سنبھالنے اور اگلی نسل کے حوالے کرنے میں مصروف ہے۔ مگر اس کے چہرے پر صاف لکھا نظر آتا ہے کہ اسکے خواب ادھورے ہیں۔ شیر کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ جب کسی سے ناراض ہو جائے تو آسانی سے دل میں ڈالی گرہ کھولتا نہیں، وہ بہت گہرا ہے، اسکے دل اور دماغ کو ٹٹولنا مشکل ترین کام ہے مگر چونکہ وہ بہت تجربہ کار ہے اس لئے اسے علم ہے کہ اسکے خاندان کو ہائبرڈ نظام میں جو حصّہ ملا ہے وہ ناپائیدار ہے، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ جنگل میں ووٹ ڈالے جائیں تو شیر گروپ اکثریت حاصل نہیں کر سکے گا۔ ابتداء میں اسے خیال ہوگا کہ ترقیاتی کاموں اور کامیاب معیشت سے عوامی دھارا بدل جائے گا، اور جنگل کے گمراہ ہو جانے والے جانور اپنی سوچ میں تبدیلی لائیں گے، تاہم ایسا ہو نہیں پا رہا۔

ایسے میں سوال یہ ہے کہ بوڑھا شیر ایسا کونسا بڑا کام کرے کہ تاریخ میں اپنا نام چھوڑ جائے، وہ کچھ ایسا کرے کہ سیاسی نفرت ختم کرتے ہوئے مصالحت کی داغ بیل ڈال دے؟ اسکے ذہن کے کسی گوشے میں یہ خیال آتا تو ہو گا، لیکن دوسری طرف اسے چیتے کی زیادتیاں اور لگائے زخم بھی یاد آتے ہوں گے۔ اسے خیال آتا ہوگا کہ کس طرح سازشی عدلیہ اور سیاسی فوجی قیادت کی سازباز سے چیتے نے پہلے شیر کا دامن داغدار کیا اور پھر دامن سرے سے ہی پھاڑ دیا۔ بد لحاظ چیتے نے صرف اس پر اکتفا نہیں کیا۔ اس کے حامیوں نے لندن تک اس کا پیچھا کیا اور اس کے گھر کے باہر مورچہ لگا کر اس کے سینے پر تیر مارتے رہے؟ لہٰذا چیتے کی زیادتیوں کو بھلانا اور اس کے ساتھ مصالحت کا راستہ آسان نہیں ہے۔

دراصل چیتا، شیر کا پرانا واقف ہے، شیر اور چیتے کا رابطہ کرکٹ کے دنوں سے تھا۔ چیتا، چیتا فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا لاڈلا کرکٹر تھا جبکہ شیر اس کا لاڈلا سیاست دان تھا، بینظیر بھٹو کا مخالف ہونا بھی دونوں میں قدرِ مشترک تھی۔ شوکت خانم ہسپتال لاہور کی تعمیر کے لیے پلاٹ لینے تک شیر اور چیتے دونوں کی گہری دوستی رہی لیکن پھر دائیں بازو کی فوجی قیادت نے چیتے میں اتنی ہوا بھر دی کہ اسے شیر بھی بکری لگنا شروع ہو گیا۔ جنرل پاشا کے دور میں تو چیتے نے شیر کو بکری کی طرح تر نوالہ بنا کر سرعام اس کی مخالفت شروع کردی۔ چیتا سٹیج پر شیر کو برا بھلا کہتا رہا مگر 2013 کا الیکشن پھر سے شیر جیت گیا۔

ایسے میں شیر اچانک چیتے کے پاس اسکے بنی گالہ والے گھر جا پہنچا۔ چیتے میں سو خرابیاں ہوں گی مگر جب شیر، لومڑی یا جنگل کا کوئی بھی جانور اس کے سامنے چلا جائے تو وہ اس سے بدتمیزی نہیں کرتا۔ پشت پیچھے چاہے ہر ایک کو گالی دے مگر آمنے سامنے وہ تہذیب کا دائرہ کبھی پار نہیں کرتا۔ چکری کے مشترکہ دوست نے چیتے اور شیر کی خوش گوار ملاقات تو کروا دی لیکن اس کے خوشگوار اثرات برقرار نہ رہ پائے اور پھر وہی پرانی الزام تراشی، دشنام بازی اور احتجاج شروع ہو گئے۔

سہیل وڑائج کہتے ہیں کہ آپ فرض کریں شیر ، جیل میں بند چیتے کو ملنے اس کے پاس چلا بھی جاتا ہے تو کیا ہو گا، تخت ایک ہے اور اس کے دعویدار دو؟ ایک طرف شیر کا چھوٹا بھائی ور دوسری طرف چیتا خود۔ ایسے مین بڑا شیر، چھوٹے کو ہٹا کر چیتے کو تخت تو دے نہیں سکتا؟ چیتا خواہش مند ہے کہ وہ صرف ببّر شیر سے ڈیل کرے جبکہ ببّر اس پر آمادہ نظر نہیں آتا۔ فرض کریں شیر بادلِ نخواستہ جیل میں قید چیتے کا دروازہ کھٹکھٹا بھی دے تو مذاکرات کیا ہوں گے؟ کیا چیتا، چھوٹے شیر اور شیرنی کے اقتدار میں رہنے پر رضامند ہو جائے گا؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہو گا۔ فرض کریں شیر فرشتہ بن کر چیتے کو جنگل کا انتظام سنبھالنے کا کہہ بھی دے تو ببر شیر ایسا ہونے نہیں دے گا، ویسے بھی عقل اس پیشکش کو ناممکن سمجھتی ہے۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ تیسری ممکنہ خواہش اور کوشش مل جل کر حکومت کرنے کی پیشکش ہو سکتی ہے، لیکن فی الحال نہ چیتا اس آفر کو مانے گا اور نہ شیر یہ آفر کرے گا کیونکہ یہ شرط ہائیبرڈ نظام کے خالق ببّر شیر کیلئے قابل قبول نہیں۔ اگر شیر اور چیتا مل بھی جائیں اور مفاہمت کر بھی لیں تب بھی ببّر شیر کو ویٹو کا اختیار حاصل ہے۔

سرکاری خزانے پر شاہی چھٹیاں،مریم حکومت نے وزیروں کی عیاشی کو قانون بنا دیا

چنانچہ ممکنہ عقلی راستہ صرف ایک ہے جو جنگل میں سیاسی امن و مفاہمت کا ماحول پیدا کر سکتا ہے، لیکن وہ راستہ ا بھی نہیں کھلے گا، یہ راستہ تب کھلے گا جب چیتے کی جماعت سیاسی جنگ میں ہار کر تھک جائیگی۔ تب منگولوں سے ہارے ہوئے بغداد کے بادشاہ اور شکست خوردہ مغل بادشاہ سے نادر شاہ اپنی مرضی کا فیصلہ کروا لے گا، تب یہ کام بہت آسان ہوگا۔ نونی شیروں اور انصافی چیتوں کی قومی حکومت بنانا خارج از امکان نہیں۔ یہ قومی حکومت دو سال بعد منصفانہ انتخابات کروائے اور اس حکومت کو فوج کی مکمل سپورٹ حاصل ہو۔ جواباً تینوں سیاسی جماعتیں فوج کے ببر شیر کو متفقہ طور پر تسلیم کرلیں اور انعام کے طور پر ببر شیر قومی حکومت کے ذریعے سیاست کو الیکشن کی طرف جانے کا موقع دیدے۔ لیکن اگر یہ راستہ نہیں نکلتا تو نہ شیر جیل جائے گا اور نہ ہی چیتے سے ملاقات ہو گی، نہ مفاہمت کا دروازہ کھلے گا اور نہ ساکن سیاست متحرک ہو سکے گی۔ قیافے فرضی کہانیاں اور مستقبل کے تانے بانے سنائے جاتے رہیں گے مگر جب تک مصالحت سے قومی حکومت نہیں بنتی تب تک جمہوری مستقبل پر تالا لگا رہے گا۔ اسی تالے کی تال میل سے اڈیالہ جیل کا تالا بھی بند ہی رہے گا۔

Back to top button