تحریک عدم اعتماد اپوزیشن لا رہی ہے یا کہ اسٹیبلشمنٹ؟

تقریبا دو ہفتے پہلے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کرنے والی اپوزیشن جماعتیں ابھی تک نمبرز گیم پوری کرنے کی کوشش میں ہیں جسکے بعد ہی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی ریکوزیشن دی جائے گی۔ تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن اپنی نمبرز گیم پوری کرنے میں تب تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک فوجی اسٹیبلشمنٹ اس کا ساتھ دینے پر آمادہ نہیں ہو جاتی۔

ان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی کامیابی کا دارومدار تحریک انصاف میں بغاوت پر ہے جس سے واضح ہوجائے گا کہ اسٹیبلشمنٹ نے تبدیلی کا اشارہ دے دیا ہے۔ عمران کی اتحادی جماعتیں بھی ان کا ساتھ چھوڑنے کے بارے میں تب ہی سوچیں گی جب تحریک انصاف کے اندر پھوٹ پڑ جائے گی۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دراصل اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر لائی جا رہی ہے جس کا مقصد عمران خان پر توسیع کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اگر توسیع کا فیصلہ ہو جاتا ہے تو کیا اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہو جائے گی۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر توسیع نہیں دی جاتی تو کیا اسٹیبلشمنٹ کھل کر تحریک عدم اعتماد میں حصہ ڈالنا شروع کر دے گی جس کا مطلب عمران خان کی فراغت ہو گا۔ ایسے میں یہ تاثر تقویت پکڑتا جا رہا ہے کہ دراصل اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کو وزیراعظم پر دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور جب اس کا مقصد پورا ہو جائے گا تو ماضی کی طرح اپوزیشن ایک بار پھر فارغ کر دی جائے گی۔

دوسری جانب اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد عمران خان کو نکال کر پاکستان کو بچانا اور عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہے چنانچہ نتیجہ جو بھی آئے تحریک عدم اعتماد ضرور آئے گی۔ ان کو یہ بھی یقین ہے کہ اگر عمران خان توسیع دینے کا فیصلہ کر بھی لیتے ہیں تو بھی ان کا بچنا محال ہے۔

بحر حال مستقبل میں جو بھی ہو اصل حقیقت یہ ہے کہ عمران کے خلاف شروع ہونے والی حالیہ تحریک صرف نمبرز گیمز پر منحصر نہیں ہے اور بہت سارے ظاہر اور پوشیدہ عوامل بھی ہیں جو کہ فیصلہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ ان پوشیدہ یا خفیہ معاملات کی طرف جانے سے پہلے ذرا یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ تحریک عدم اعتماد کیوں اور کیسے ایک آپشن کے طور پر سامنے آئی اور یہ تحریک اصل میں ہوتی کیا ہے؟

عدم اعتمادکی کامیابی کے لئے PTI کا ٹوٹنا کیوں لازمی ہے؟

آئین کے آرٹیکل 95 کے تحت وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کی جا سکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے لیے قومی اسمبلی کی کل رکنیت کے کم از کم 20 فیصد اراکین کو ایک تحریری نوٹس اسمبلی سیکریٹریٹ میں جمع کروانا ہو گا۔ اس کے بعد تین دن سے پہلے یا سات دن بعد ووٹنگ نہیں ہو سکے گی۔ قومی اسمبلی کی کل رکنیت کی اکثریت سے منظور ہو جانے پر وزیر اعظم اپنے عہدے پر فائز نہیں رہیں گے۔

اس وقت قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے اس کی حمایت میں 172 ووٹ درکار ہیں۔ قومی اسمبلی کی ویب سائٹ کے مطابق حکومتی جماعت پی ٹی آئی کو اتحادیوں سمیت 178 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ ان اراکین میں خود پاکستان تحریک انصاف کے 155 اراکین، ایم کیو ایم کے سات، بی اے پی کے پانچ، مسلم لیگ ق کے بھی پانچ اراکین، جی ڈی اے کے تین اور عوامی مسلم لیگ کے ایک رکن حکومتی اتحاد کا حصہ ہیں۔

دوسری جانب حزب اختلاف کے کل اراکین کی تعداد 162 ہے۔ ان میں اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے 84، پاکستان پیپلز پارٹی کے 57 اراکین، متحدہ مجلس عمل کے پندرہ، بی این پی کے چار جبکہ عوامی نیشنل پارٹی کا ایک رکن شامل ہے۔ اس کے علاوہ دو آزاد اراکین بھی اس اتحاد کا حصہ ہیں۔

اگر پارٹی پوزیشن دیکھی جائے تو حزب مخالف کو دس مزید اراکین کی حمایت درکار ہے۔ جماعت اسلامی، جن کے پاس قومی اسمبلی کی ایک نشست ہے، نے فی الحال کسی کا ساتھ دینے کا اعلان نہیں کیا۔ اب حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ ق اور ایم کیو ایم کے علاوہ جہانگیر ترین گروپ سے بھی رابطے کیے جا رہے ہیں۔

ترین گروپ کا دعویٰ ہے کہ ان کے ساتھ اس وقت سات ممبران قومی اسمبلی ہیں۔ حزب اختلاف کی جماعتیں وزیراعظم کے خلاف تحریک کی کامیابی کے لیے ووٹ پورے کرنے کی غرض سے حکومتی اتحادیوں سے ملاقاتیں کر رہی ہیں۔ یہ دعوے بھی کیے جا رہے ہیں کہ خود حکومتی جماعت کے بعض اراکین سے بھی رابطہ مہم جاری ہے۔

تاہم حکومتی اراکین ہوں یا حزب اختلاف کے ممبران، جس سے بھی بات کی جائے انھیں مکمل اعتماد ہے کہ تحریک کا فیصلہ انھی کے حق میں ہو گا۔ مگر یہ کھیل اتنا سادہ بھی نہیں۔ خاص طور پر ایک ایسے ملک میں جہاں حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی قوت کے ساتھ ساتھ، ایک تیسری قوت کی بات بھی بار بار کی جاتی ہے۔ اس طاقت کو عرف عام میں اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے جو حکومت یا اپوزیشن میں سے جس کے بھی ساتھ کھڑی ہو جائے، وہی کامیاب ہو جاتی ہے۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’ہمیں محسوس ہو رہا ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ پر بھی دباؤ ہے کہ وہ اس ناکام حکومت کی حمایت نہ کرے۔‘ انکا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے عمران کا ساتھ نہ دیا تو اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد لازمی کامیاب ہو گی۔‘ یہی بات بلاول بھٹو لانگ مارچ شروع کرنے کے بعد سے اپنے جلسوں میں بار بار کرتے آرہے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا کہ ’ہمارا موقف بڑا واضح ہے۔۔۔۔ ہم عمران خان کے اتحادی نہیں ہیں۔

ہم دراصل اسٹیبلشمنٹ کے اتحادی ہیں۔‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی جماعت کی ’کریڈیبلٹہ‘’ پر ریاست سب سے زیادہ اعتماد کرتی ہے اور ہم ریاست کے ایسے ساتھی ہیں جو ہر اچھے بُرے وقت میں ریاست کے حمایتی اور اتحادی رہے ہیں، اور اس کے اتحادی رہیں گے۔ جب تک ریاست ہمارے ساتھ کھڑی ہے، ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہمارا معاہدہ بھی ریاست کے ساتھ ہے۔ عمران خان کے ساتھ ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔‘

مسلم لیگ ق کے اراکین کی تعداد سات ہے جو حکومتی بینچ کا حصہ ہیں۔ فی الحال ق لیگ کی طرف سے یہ نہیں کہا گیا کہ وہ عمران خان کے خلاف ووٹ کا حصہ بنیں گے۔ ایسا بیان ایم کیو ایم نے بھی نہیں دیا۔ البتہ ق لیگ کے پرویز الہی نے یہ ضرور کہا ہے کہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی۔ عام طور پر اتحادی جماعتیں حکومت کے آخری دنوں میں اتحاد چھوڑنے کا فیصلہ کر بھی لیں تو ایسا کئی عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جاتا ہے۔

مثلا نئی حکومت میں ان کی کیا جگہ ہو گی، انھیں کیا ملے گا، عوام کی رائے موجودہ حکومت کے بارے میں کیا ہے۔ نئے انتخابات میں انھیں کن حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وغیرہ۔ کچھ یہی صورت حال متحدہ قومی موومنٹ کی بھی ہے۔ لیکن گذشتہ تین برس کے دوران حکومت اور اتحادی جماعتوں کے درمیان شدید اختلافات بھی سامنے آئے ہیں اور زیادہ تر مواقع پر اتحادی جماعتیں اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب رہی ہیں۔

اب ملک کی معاشی صورتحال اور عوام پر مہنگائی کا بوجھ اس وقت بڑھ گیا ہے کہ یہ اتحادی جماعتیں بھی نہ صرف حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہی ہیں بلکہ حکومتی کارکردگی سے مایوس آئندہ انتخابات میں خود اپنے ووٹ بینک کو قائل کرنے کے لیے پریشان نظر آتی ہیں۔

دوسری جانب سے عمران خان کو برسر اقتدار لانے والی فوجی اسٹیبلشمنٹ بھی اب انہیں ایک بوجھ سمجھ رہی ہے اور شاید اسی لیے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد بھی لائی جا رہی ہے۔ لیکن کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی اس موقف کے پیچھے توسیع کا معاملہ چھپا ہوا ہے۔

خیال رہے کہ موجودہ آرمی چیف رواں برس نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں تاہم نئی ترمیم کے تحت وہ اب بھی ایک ایکسٹیشن لے سکتے ہیں۔ ان کی ایکسٹیشن کی صورت میں موجودہ سینیئر ترین جنرلز آئندہ برس نئے چیف کی تعیناتی سے پہلے ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔ لہذا اب اہم ترین سوال یہ ہے کہ کیا اپنی غلطی کو درست کرنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد میں حصہ ڈالے گی اور کیا جنرل باجوہ کو اگلی توسیع عمران خان دیں گے یا نیا وزیراعظم؟

Back to top button