اب عمران خان کے کارکنان بھی انکا ساتھ کیوں چھوڑنے والےہیں؟

پاکستانی سیاسی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں وزارت عظمی سے فارغ ہونے کے بعد اسے امریکہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دینے والے عمران خان اس وقت رہائی کے لیے امریکہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ دونوں کے ترلے کرتے نظر آتے ہیں۔ پارٹی لیڈرز کے علاوہ اب تحریک انصاف کے کارکنان بھی یہ حقیقت جان چکے ہیں کہ "ایبسلوٹلی ناٹ” کا نعرہ لگانے والا عمران نہ تو امریکا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے۔ اب وہ ان دونوں کی منت کر رہا ہے، لہذا وہ وقت دور نہیں جب اپنے کپتان کا اصل چہرہ بے نقاب ہونے کے بعد تحریک انصاف کے کارکنان عمران کی کتاب کا آخری باب تحریر کریں گے۔
سینیئر صحافی اور لکھاری عمار مسعود اپنے تازہ تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کا کارکن بہت سخت جان ہے لیکن گمان ہے کہ ان دو محازوں پر پسپائی کی خبر سے وہ خان کا ساتھ چھوڑ جائے گا۔ انکے مطابق اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ تحریک انصاف کا کارکن بڑا سخت جان ہے۔ اس نے سب کچھ سہا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔ ہر مشکل وقت کو برداشت کیا مگر خان کے بیانیے کے ساتھ رہا۔ اس کارکن نے ہر یوٹرن پر آمنا صدقنا پڑھا اور بغیر کسی اعتراض کے خان کے قافلے میں شامل رہا۔ خان کے ہر حکم پر اُس نے لبیک کہا، ہرتحریک کا حصہ بنا۔ ہر دھرنے، لانگ مارچ کی تائید کی۔ ہر احتجاج کی کال پر زیادہ نہیں تو کم از کم سوشل میڈیا پر احتجاج ضرور کیا۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ جب خان صاحب نے فرمایا کہ اس ملک میں بارہ موسم ہوتے ہیں، اس کارکن نے ایک دفعہ بھی اعتراض نہیں کیا۔ بلکہ انکا کارکن موسمیاتی سائنس کی کتب سے تاویلیں تلاش کرنے لگا جن کے مطابق موسم بارہ ہی ہوتے ہیں اور خان کے اس بیان سے پہلے سائنس غفلت کی زندگی گزار رہی تھی۔ محمکہ موسمیات ڈھٹائی کا مظاہرہ کر رہا تھا یا پھر خود موسم بددیانتی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ کسی کارکن کے منہ سے اُف تک نہیں نکلا۔ کسی نے اپنے لیڈر کی تصحیح کی جرات نہیں کی۔
آفرین ہے اس کارکن پر جس نے خان کے کہنے پر عثمان بزدار کو بھی اپنا لیڈر مان لیا۔ وہ شخص جو چند دن پہلے کسی اور جماعت میں تھا، جس نے کبھی تقریر نہیں کی، جس نے کبھی کسی فائل پر دستخط نہیں کی، جس نے کبھی کوئی محکمہ نہیں چلایا۔ اس کو وزیر اعلیٰ بنا دیا۔ وہ وزیر اعلیٰ جو پریس سے چھپتا پھرتا تھا۔ لیکن خان کا کارکن اسے وسیم اکرم پلس کہنے لگا کیونکہ یہ خان کا حکم تھا۔ اور یہاں حکم عدولی کی گنجائش نہیں ہے۔ صرف تعمیل ہی اس کارکن کا شیوہ ہے۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ دعائیں دیجیے اس کارکن کو جس کو خان نے ’شعور‘ عطا کیا۔ اس کارکن کو احساس تک نہیں ہوا کہ عمرانی شعور صرف گالیاں دینے، بہتان لگانے اور نفرت پھیلانے تک محدود تھا۔ یہ ’شعور‘ خان کے کارکنوں کا پسندیدہ شعار رہا۔ اسی شعور کے تحت پہلے وہ دوسری سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کو گالی دیتے تھے۔ پھر سائفر کا جھگڑا شروع ہوا تو شعور سرحدیں پار کر امریکا تک پہنچ گیا اور یہی کارکن خان کو سازش کے ذریعے اقتدار سے نکلوانے والے امریکا کو گالیاں دینے لگا۔ جب خان کی اپنی خالق فوجی اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی ہوئی تو کارکن گالیوں کی تلواریں سونت کر اسٹیبلشمنٹ کے پیچھے پڑ گیا۔ قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس بنے تو گالیوں کی لہر عدلیہ کی جانب چل پڑی۔ عدلیہ سے فارغ ہوئے تو آپس میں لڑنے لگے۔ آج کل شیر افضل، سلمان اکرم راجہ کو دشنام بھرے سلام بھیج رہے ہیں۔ فواد چوہدی نے گالیوں کی بوچھاڑ میں شعیب شاہین کو مکا جڑ دیا۔ شاندانہ گلزار، مشال یوسفزئی کے حوالے سے نازیبا گفگو کر رہی ہیں۔ اور علی امین گنڈاپور پرائیویٹ محفلوں میں بشریٰ بی بی اور جیند اکبر کے بارے میں پوری شدت سے ’شعور‘ تقسیم کر رہے ہیں۔
عمار مسعود کے بقول شعور کی حد تو یہ ہے کہ اب انصافی یو ٹیوبرز ہی ایک دوسرے کے کپڑے اتار رہے ہیں۔ یہ سب خان کے احکامات کی پابندی کی وجہ سے ہو رہا ہے کیونکہ خان کو ایسے ہی جی دار اور باشعور کارکن خوش آتے ہیں۔
عمار کہتے ہیں کہ دادو تحسین دینی چاہیے خان کے کارکن کو جس نے دھرنوں کی سختیاں برداشت کیں، لانگ مارچ کے مصائب کا مقابلہ کیا، خان کے کہنے پر ریاستی تنصیبات کو نذر آتش کیا۔ حتیٰ کہ خان سے مخلص اس سادہ لوح کارکن نے شہدا کی یادگاروں کو بھی آگ لگائی۔ اس کارکن نے آنسو گیس کا بھی سامنا کیا، گرفتاریاں بھی دیں، پولیس سے ڈنڈے بھی کھائے، گولی کا سامنا بھی کیا مگر خان کا ساتھ نہیں چھوڑا ۔
الیکشن کا وقت یاد کریں۔ انتخابی نشان والا فیصلہ آ چکا تھا۔ ن لیگ کا نعرہ مقبول ہو چکا تھا کہ ’ساڈی گل ہو گئی اے‘ تحریک انصاف کے ووٹر نے ایسے میں کمال تنظیم کا مظاہرہ کیا۔ ووٹ کتنے پڑے یہ الگ بات ہے مگر اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے کہ خان کا ووٹر الیکشن میں ووٹ ڈالنے نکلا۔ ان میں سے بہت سارے لوگ جانتے تھے کہ معروضی حالات میں ان کا ووٹ کار آمد نہیں ثابت ہو گا لیکن اس کے باوجود خان کا کارکن ڈٹا رہا۔ اس نے شکست نہیں مانی، اور حوصلہ نہیں چھوڑا ۔ دراصل خان نے اپنے کارکنوں کے دلوں میں اعلیٰ مقام تب نہیں پایا جب وہ حکومت میں تھے۔ حکومت چھوڑنے کے بعد دو نعرے کارکنوں کے دل میں گھر کر گئے۔ ایک نعرہ امریکا کی غلامی سے نجات کا تھا اور دوسرا فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تھا۔ ان دو نعروں سے خان صاحب نے ’کام اٹھا دیا‘ ، اپنی سلیکٹڈ سیاست سے نجات حاصل کی اور عوامی سیاست کے میدان میں قدم رکھا۔
عمار مسعود بتاتے ہیں کہ یہ دو نعرے آج سے نہیں بلکہ ہمیشہ سے پاکاتانی عوام میں مقبول ہیں۔ سب سیاستدانوں نے یہ نعرے لگائے اور پھر سمجھوتا بھی کیا۔ ضیاء الحق کے ہاتھوں تختہ دار پر جھول جانے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے علاوہ سب ہی سیاستدانوں نے علم بغاوت بلند کرنے کے بعد ہتھیار ڈال دیے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں سے بات کرو تو اس وقت انہیں سب سے فکر اس بات کی ہے کہ امریکا کے خلاف جہاد جاری ہے کہ نہیں؟ دوسرا وہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ خان فوجی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ڈٹ کے کھڑ ا ہے نا؟ ان دو سوالوں کے سہارے اس کارکن کی سانسیں چل رہی ہیں۔ وہ بار بار انہی دو سوالوں پر خان کے رد عمل پر خوشیاں مناتا ہے۔ اس کو یقین ہے کہ خان نہ امریکا کے آگے جھکے گا اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو معاف کرے گا۔
عمار مسعود کہتے ہیں کہ کارکن بہت سادہ لوح ہوتے ہیں ان کے دل معصوم ہوتے ہیں۔ عمران خان کے سخت جان کارکن کو جب اصل صورت حال کا پتہ چلے گا کہ خان کس طرح امریکا کو مدد کے لیے پکار رہا ہے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے پاؤں پڑ رہا ہے تو اس کارکن کا دل کتنا ٹوٹے گا۔ جب عمران خان کے متوالوں کو پتہ چلے گا کہ امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے خان کے پیرو کار آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کی شکایت لگا سکتے ہیں تو یہ سادہ لوح کارکن کتنا رنجیدہ ہو گا۔ اسی کارکن کو جب یہ علم ہو گا کہ خان فوجی اسٹیبلشمنٹ سے نہ صرف معافیاں مانگ رہا ہے بلکہ اس سے این آر او کی درخواست بھی کر رہا ہے تو اس کارکن پر کیا گزرے گی۔
عمار مسعود کے بقول جب یہ دونوں باتیں تحریک انصاف کے کارکن پر کھل کر عیاں ہو جائیں گی کہ خان نہ تو امریکا کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے اور نہ ہی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے سامنے، تب یہ کارکن تحریک انصاف کی کتاب کا آخری باب تحریر کرے گا۔ تحریک انصاف کا کارکن بہت سخت جان ہے لیکن ان دو محازوں پر پسپائی کی خبر سے وہ خان کا ساتھ چھوڑ جائے گا۔