حکمرانوں کے خلاف نفرت کا کون سا آتش فشاں پھٹنے جا رہا ہے؟

پاکستانی فیصلہ سازوں کی جانب سے مسلسل مہنگائی کا بوجھ پسے ہوئے طبقے پر ڈالنے کا نتیجہ یہ ہے کہ عوام حکمران اشرافیہ سے نفرت کرنے لگے ہیں۔ دہائیوں سے مایوس لوگوں سے زیادہ خطرناک کوئی اور نہیں ہوتا اور مایوسی بڑھ جائے تو لوگ دیوار سے سر ٹکرا دیا کرتے ہیں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ غربت کی چکی میں پسنے والے اپنے مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں، انہیں جھوٹے وعدے اب مطمئن نہیں کر پا رہے۔ ان کا پیٹ اب نصیحتوں سے بھرنے والا نہیں ہے۔ آج کا پاکستان مفلس اور پسے ہوئے طبقے کا آتش فشاں بن چکا ہے اور مذید مہنگائی سے یہ آتش فشاں پھٹ بھی سکتا ہے۔

عمار مسعود اپنے سیاسی تجزیے میں ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ خبریں سب ہی سنتے، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ہر خبر کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ ہر خبر مختف ڈھنگ سے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ خبر کے لیے وقت اہم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے بعد وہی خبر ردی کا ٹکڑا  بن جاتی ہے۔ یہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ خبر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، یا اخبارات کے صفحوں میں گم ہو جاتی ہیں یا پھر دلوں کو چیر جاتی ہیں۔

عمار کہتے ہیں کہ یہ خبر سب نے سنی کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ یہ خبر سب کی نظروں سے گزری کہ وفاقی وزرا کے معاوضوں میں ہوش ربا بڑھوتری ہوئی۔ یہ بات سب تک پہنچی کہ سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تنخواہ لگ بھگ 21 لاکھ روپے ہو گئی۔ یہ اضافہ موصوف نے خود فرمایا ہے۔

ان سب خبروں کی تاثیر اور اثر مختلف رہا۔ یوں لگا کسی نے رستے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔ یوں لگا جیسے کسی نے اس ملک کے غریب کو گالی دی ہو، یوں لگا کہ جیسے کوئی فاقہ کش کسی بدمست ٹرک کے نیچے آ گیا ہو۔

ایوان نمائندگان سے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، لکشمی جن کے قدموں میں ڈھیر رہتی ہے، جن کے پاس اپنی دولت کا حساب رکھنا مشکل ہوتا ہے، جن کے کاروبار کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کے ذرائع آمدن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ غریب کے منہ پر تھپڑ ہوتا ہے، اس کی مفلسی کے ماتم کے مقابل جشن ہوتا ہے۔

عمار مسعود کہتے ہیں کہ ایک لمحے کو سوچیں ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی سارے مہینے کی تگ و دو کا مرکز و محور وہ بجلی کا بل ہو جو اس سے ادا نہیں ہوتا۔ ایک لمحے کو اس شخص کے بارے میں سوچیں جس نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا ہو کیونکہ نہ اس کے پاس فیس کے پیسے ہیں نہ کتابوں کا خرچہ اور نہ ہی بچوں کو اسکول پہنچانے کا کوئی ذریعہ۔ ایک لمحے کو سوچیں اس شخص کے بارے میں جس کے بچے بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بھوکے سوئے، جس کی ماں کو دوائی میسر نہ ہوئی، جس  کے پاس موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں رہے، جس کے پاس بس میں سفر کرنے کا کرایہ نہیں رہا، اس نے سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 21 لاکھ روپے کیے جانے کی خبر کو  کیسے پڑھا ہو گا؟ کسے سنا ہوگا؟ کیسے سمجھا ہوگا؟ اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟

عمار مسعود کہتے ہیں کہ سوچیں ذرا!  دنیا کے سب ملکوں میں پیٹرول سستا ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو نوید سنا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کاروباری حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اپنے ہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی خبر سانپ بن کر سینوں پر لوٹ رہی ہے۔ قیمتوں میں کمی کی ذرا سی امید لگتی ہے تو حکومت بڑے طمطراق سے اس امید کو پیروں تلے مسل دیتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا غریب کے بارے میں۔ کوئی اس کے دکھ کی خبر نہیں لیتا، کوئی اس کو سینے سے نہیں لگاتا۔ ایک وزیر خزانہ ہیں ان کے پاس ایک ہی رٹ ہے کہ اس ملک کے بدبخت،  جاہل اور احمق   لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ بڑے زعم سے اعلان کرتے ہیں کہ اِس پر بھی ٹیکس لگا دو اور اُس کو ٹیکس نیٹ میں لے آؤ۔ ان کو کوئی یہ خبر نہیں دیتا کہ ماچس بنانے والے سے لے کر بس کا کرایہ وصول کرنے والے تک ہر کوئی اس ٹیکس کا بوجھ غریب پر منتقل کرتا ہے۔ غریب پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ چیخ نہیں پا رہا، اس کی آواز بھی گم ہو گئی ہے،  اور وہ اس سارے نظام سے لاتعلق ہوگیا ہے۔

نواز شریف کی عمران سے جیل میں ملاقات کا امکان کیوں نہیں ؟

عمار مسعود کے بقول لوگ اب یہ سوال بھی نہیں پوچھتے کہ ٹیکس کے بدلے ہمیں حکومتیں کیا دیتی ہیں؟ کون سی سہولتیں ہمارا مقدر بنتی ہیں؟ کون سے منصوبے ہمارے لیے شروع ہوتے ہیں، کن اسکیموں کے ثمرات ہم تک پہنچتے ہیں؟ لوگ اب سوال نہیں پوچھتے، جواب نہیں مانگتے، حق نہیں مانگتے۔ لوگ خاموش رہتے ہیں یا چیخ پڑتے ہیں۔

چند ماہ پہلے کی بات ہے، بہت سے ایسے تھے جو عمران خان کا نعرہ لگاتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو نواز شریف کا دم بھرتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو مولانا کے گیت گاتے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو  آج بھی بھٹو کے ترانے بجاتے تھے۔ لیکن اس مفلسی نے سب کی تخصیص ختم کردی ہے۔ لیکن اب کوئی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں لگا رہا، کوئی کسی کو نجات دہندہ نہیں مان رہا۔  اب نہ جماعت کی تخصیص رہی نہ لیڈروں میں کوئی فرق رہا۔ نہ کسی کے منشور سے وابستہ امیدیں رہیں نہ کسی کی شخصیت سے توقع رہی۔ سب مفلسی کی زنجیر میں بندھ گئے۔ اب کارکن نہیں رہے، اب سب غریب بن گئے ہیں۔ اب یہ معاشرہ کئی طبقات میں منقسم نہیں رہا۔

عمار مسعود کے مطابق اب پاکستان میں صرف دو ہی طبقے ہو گے ہیں۔ ایک حکمران طبقہ جو اپنی مرضی سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتا ہے اور دوسرا وہ طبقہ جن کا چہرہ ان کی چمکتی گاڑیوں کی دھول سے اٹلا ہوا ہے۔ ہمار المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر زمانے اور ہر عہد میں کسی نہ کسی سے امیدیں وابستہ کیں۔ کسی کو مسیحا مانا،  کسی کو مالک تسلیم کیا، کسی شخص کے قصیدے پڑھے،  کسی جماعت  کے نعرے لگائے،  کسی انقلاب کا انتظار کیا لیکن سب کا نتیجہ ایک رہا۔ سب نے خواب دیکھنے والوں کے خواب چکنا چور کیے۔ سب نے محروموں کی  محرومیوں میں  اضافہ ہی کیا۔ سب نے اپنے مفاد کے بارے میں سوچا اور عوام کی امیدوں، چاہتوں اور تمناؤں کو کراہت سے پس پشت ڈال دیا۔

Back to top button