بلاول بھٹو نے پارلیمانی وفد کے دورے کو ’ امن کا مشن ‘ قرار دے دیا

بلاول بھٹو زرداری نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقات میں پاکستان کے پارلیمانی سفارتی وفد کے دورےکو ’امن کا مشن‘ قراردیتے ہوئے کہاکہ ہم یہاں آپ سے اپیل کرنے آئے ہیں کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے، امریکا بھارت کو سمجھاسکتا ہےکہ مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل ہم سب کے مفاد میں ہے۔
بلاول بھٹوزرداری کی قیادت میں پاکستانی پارلیمانی وفد نے امریکی ارکان کانگریس سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستان ہاؤس واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں کے اعزاز میں عشائیہ و استقبالیہ دیا گیا۔ استقبالیے میں 13 سے زائد امریکی کانگریس اراکین نے شرکت کی۔
تقریب میں امریکی کانگریس کے اراکین بشمول جیک برگمین، ٹام سوزی،ریان زنکے، ایل گرین، میکسن واٹرز، ہینک جانسن، جوناتھن جیکسن، اسٹیسی پلاکٹ، ہنری کیوئیلار، رائلی مور، مائیک ٹرنر، جارج لیٹیمیر اور کلیو فیلڈز سمیت دیگر نے شرکت کی۔
امریکی قانون سازوں سے خطاب کرتےہوئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خطے میں امن و استحکام کی اہمیت کو اجاگر کیا اور وفد کے دورےکو ’امن کا مشن‘ قراردیا۔
تقریب سے خطاب کرتےہوئے بلاول بھٹو نے کہاکہ وزیرِ اعظم محمد شہباز شریف نے وفد کو ایک مشن دیا ہے اور وہ امن مشن ہے جس میں بھارت سے بات چیت اور سفارت کاری کےذریعے مسائل کا حل تلاش کرنا شامل ہے۔
حالیہ بھارتی جنگی بیانیے اور موجودہ جنگ بندی کی نازک نوعیت کا حوالہ دیتےہوئے بلاول بھٹو نے مستقبل میں ممکنہ کشیدگی ک خطرات پر روشنی ڈالی اور کہا کہ جنگ بندی خوش آئند ضرور ہےلیکن یہ محض ایک آغاز ہے، حقیقت یہ ہےکہ جنوبی ایشیاء، بھارت، پاکستان اور بالواسطہ طور پر پوری دنیا آج اس بحران کے آغاز کے وقت کی نسبت زیادہ غیرمحفوظ ہے۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مکمل جنگ کی حد آج ہماری تاریخ میں کبھی بھی اتنی کم نہیں رہی،اگر بھارت میں کہیں بھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے،ثبوت ہو یا نہ ہو،اس کا مطلب جنگ سمجھا جاتاہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھارت کی جانب سے یک طرفہ طور پر سندھ طاس معاہدے (Indus Water Treaty) کی معطلی کے ممکنہ نتائج پر بھی امریکی قانون سازوں کو آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کا 24 کروڑ پاکستانیوں کےلیے پانی بند کرنے کا عندیہ ایک وجودی خطرہ ہے،اگر بھارت نے یہ اقدام کیا تو یہ جنگ کے اعلان کے مترادف ہوگا۔
بلاول بھٹو نے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے حصول میں امریکا کے کردار کو سراہا اور امریکی قانون سازوں سے مطالبہ کیاکہ وہ جنوبی ایشیاء میں امن و استحکام کے قیام کےلیے اپنی کوششیں جاری رکھیں۔
انہوں نےکہا ہم یہاں آپ سے اپیل کرنے آئے ہیں کہ امریکا ہمارے اس امن کے مشن میں ہمارا ساتھ دے،اگر امریکا اپنی قوت امن کے پیچھے لگادے تو وہ بھارت کو سمجھاسکتا ہےکہ ہمارے مسائل کو حل کرنا،بشمول مسئلہ کشمیر کا پُر امن حل ہم سب کے مفاد میں ہے۔
بلاول بھٹو نے سفارت کاری کی اہمیت پر زور دیتےہوئے امریکی حکومت اور کانگریس سے مطالبہ کیاکہ وہ بھارت اور پاکستان کے درمیان بامقصد اور تعمیری بات چیت میں معاونت کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ہمیں جنگ بندی کےلیے امریکا کی فوری مدد کی ضرورت تھی،آج بھی ہمیں آپ کی فوری مدد درکار ہے تاکہ بھارت کو ایسی پالیسیوں سے روکا جاسکے جو خطے اور دنیا کےلیے عدم استحکام کا باعث بنیں۔
امریکی کانگریس کے اراکین نے جنوبی ایشیاء میں امن اور استحکام کےلیے اپنی مکمل حمایت کا یقین دلایا اور جاری بحران پر پاکستانی وفد کی تفصیلی بریفنگ کو بھی سراہا۔
امریکا میں پاکستان کے سفیر رضوان سعید شیخ نے تقریب کے اختتام پر امریکی قانون سازوں کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے اس اعلیٰ سطح کے پارلیمانی وفد کے ساتھ ملاقات کی اور تبادلۂ خیال کیا۔