پرویز خٹک الیکشن میں تاخیر کی خواہش کیوں کرنے لگے؟

پاکستان تحریک انصاف سے راہیں جدا کرنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز یعنی پی ٹی آئی پی کے نام سے علیحدہ جماعت بنا کر زور وشور سے خیبر پختونخوا میں انتخابی مہم میں مصروف پرویز خٹک نے عام انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ترجمان پی ٹی آئی پی ضیا اللہ بنگش نے تصدیق کی ہے کہ پرویز خٹک کی ہدایت پر قانونی ٹیم پیٹیشن پر کام کر رہی ہے جو جلد ہی سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے گی۔

ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ ان کے پارٹی ٹکٹ پر امیدوار تمام حلقوں سے انتخابات میں حصہ لیں گے تاہم اس کے باوجود ان کی جماعت الیکشن میں تاخیر چاہتی ہے۔ ان کے مطابق ’ہماری تیاری مکمل ہے اگر کل بھی الیکشن ہوتے ہیں تو ہم تیار ہیں، لیکن ہماری پارٹی چاہتی ہے کہ الیکشن ایسے موسم میں ہو جس میں تمام اضلاع کے ووٹرز کو آسانی ہو اور وہ بغیر کسی مشکل کے اپنا حق رائی دہی استعمال کر سکیں۔‘

ضیاء اللہ بنگش نے بتایا کہ ان کی جماعت کو الیکشن کے انعقاد پر کوئی اعتراض نہیں ہے تاہم الیکشن کا انعقاد ایسے موسم میں ہو رہا ہے جس میں خیبر پختونخوا کے بالائی اضلاع میں شدید سردی پڑتی ہے، سخت سردی اور برف باری میں ووٹرز کا گھروں سے نکلنا مشکل ہے، خاص طور پر خواتین ووٹرز کا ٹرن آؤٹ متاثر ہوگا۔’برف باری کے سیزن میں پہاڑی علاقوں میں سفر کرنا خطرے سے خالی نہیں ہے اور اکثر سڑکیں بھی بند ہو جاتی ہیں، ان حالات کو مد نظر رکھ کر پرویز خٹک نے انتخابات میں تاخیر کے لئے عدالتوں سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ہماری جماعت چاہتی ہے کہ ٹرن آؤٹ زیادہ ہو، کوئی بھی شہری اپنے حق رائی دہی سے محروم نہ رہے۔‘ضیاء اللہ بنگش نے امید ظاہر کی کہ ان کی جماعت کا موقف سنا جائے گا اور مناسب وقت اور موسمی حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا، انھوں نے موقف اپنایا کہ 2 ماہ کی تاخیر کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے جبکہ ایسا کرنے سے پہاڑی اور سرد علاقوں کے ووٹرز کو آسانی ہو گی۔

پی ٹی آئی پی موسم حالات کو جواز بنا کر الیکشن تاخیر کرانا چاہتی ہے مگر سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے کہ موسم کو جواز بنایا جا رہا ہے جبکہ اصل وجوہات کچھ اور ہیں۔ پشاور کے سنئیر صحافی علی اکبر کے مطابق پرویز خٹک دن رات انتخابی مہم میں مصروف ہیں اور جگہ جگہ جلسے بھی کر رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود انہیں نہ تو عوامی پذیرائی مل رہی ہے اور نہ ہی الیکٹیبلز۔’ان کی نئی جماعت سے جو توقعات وابستہ تھیں وہ پوری نہیں ہو رہی ہیں اسی وجہ سے وہ الیکشن سے گریز کی پالیسی یا پھر مزید وقت کے طلب گار ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ الیکشن کے انعقاد میں مزید کچھ ماہ کی تاخیر کے خواہاں ہیں۔‘علی اکبر سمجھتے ہیں پرویز خٹک مسلسل کوششوں کے باوجود بھی اپنا نیا سیاسی قد بنانے میں کچھ زیادہ کامیاب ہوتے نظر نہیں آرہے اور ابھی تک کوئی بڑا جلسہ بھی نہیں کر سکے ہیں۔ ’ان کی نئی جماعت کو جو توقعات تھی یا وعدے ہوئے تھے جو ابھی تک شاید پورے نہیں ہوئے اور ان حالات میں الیکشن میں جانے سے ان کو نقصان ہو سکتا ہے۔‘علی اکبر نے بتایا کہ پرویز خٹک موسم کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی صورت حال پر خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ اور ان کا موقف ہے کہ دہشتگردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے پرامن انتخابات ممکن نہیں۔ ’2013 اور 2018 میں حالات اس سے بھی زیادہ خراب تھے اس وقت الیکشن ہوئے، صرف بات یہ ہے کہ پرویز خٹک کو مزید وقت چاہیے تیاری کے لیے، اس سے لگتا ہے کہ شاید اور لوگ ان کے ساتھ شامل ہوں گے۔‘

دوسری جانب مقامی مبصرین کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں اکثر انتخابات سردیوں میں ہی ہوئے ہیں اور موسم کی وجہ سے ووٹرز کے ٹرن آوٹ پر کوئی اثر نہیں پڑا ہے۔ ’درست ہے کہ سردیوں میں مالاکنڈ ڈویژن کے مختلف اضلاع میں سردی زیادہ ہوتی ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ان علاقوں میں کوئی سرگرمی ممکن نہیں، لوگ ووٹ کے لیے باہر نکل سکتے ہیں، ویسے بھی سردیوں میں ان علاقوں میں چھٹی ہوتی ہے۔‘ اس لئے موسمی شدت کی بنیاد پر پرویز خٹک کا الیکشن میں تاخیر کا مطالبہ بے معنی لگتا ہے۔

Back to top button