پی ٹی آئی قیادت کا حکومت گرانے کی کوششیں ختم کرنے کا فیصلہ

یہ حقیقت تسلیم کرتے ہوئے کہ 26 نومبر کے بعد پارٹی کی احتجاجی طاقت ختم ہو گئی ہے، تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے حکومت گرانے کی کوشش میں اپنی طاقت ضائع کرنے کی بجائے عمران خان کو جیل سے رہا کروانے پر توانائیاں صرف کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پارٹی کے اندرونی ذرائع کے مطابق پارٹی کی مرکزی قیادت تسلیم کرتی ہے کہ 26 نومبر کے احتجاجی دھرنے کی ناکامی کے بعد اب لوگ عمران خان کی حمایت میں سڑکوں پر نکلنے کے لیے تیار نہیں۔ ویسے بھی اب الیکشن 2024 کے انعقاد کو ایک برس سے زیادہ ہو چکا اور پی ٹی آئی ورکرز میں وہ جوش و جذبہ نہیں رہا جس کے تحت وہ ماضی میں سڑکوں پر نکلا کرتے تھے۔ چنانچہ تحریک انصاف کی قیادت اب آہستہ آہستہ نئے الیکش ، حکومت کو نکالنے اور 2024ء کے انتخابات میں دھاندلی کی مکمل تحقیقات کے اپنے بنیادی مطالبات سے پیچھے ہٹ چکی ہے۔ اب پارٹی قیادت کی مکمل توجہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی رہائی پر مرکوز ہے۔
سینئر صحافی انصار عباسی کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اب سمجھ چکے ہیں کہ تاریخی لحاظ سے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں فیصلہ کن کردار ادا کرنے والی طاقتور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست تصادم فضول ہے۔ پی ٹی آئی کی سینئر شخصیات کے ساتھ پس منظر میں ہونے والی بات چیت سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ عمران خان اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اعتماد کا گہرا فقدان اب بحال نہیں ہو سکتا اور پس پردہ کوئی ایسی ڈیل بھی نہیں ہو سکتی جس سے عمران کی جیل سے رہائی کو ممکن بنایا جا سکے۔
انصار عباسی کے مطابق پارٹی کی ایک سینئر شخصیت نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اعتراف کیا کہ فی الوقت ہمارے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہو سکتی ہے کہ اقتدار میں واپسی کی بجائے سیاسی بقاء کی حکمت عملی اختیار کی جائے تاکہ پارٹی کو سانس لینے کا موقع مل سکے۔ انکے مطابق اب پارٹی قیادت سمجھتی ہے کہ سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعاون سے چلایا جانے والا موجودہ ’’ہائبرڈ سسٹم” ابھی مزید کئی برس تک چلتا رہے گا لہذا اپنی توانائیاں اس سسٹم کو ختم کرنے کی بجائے عمران خان کی رہائی پر مرکوز کرنی چاہییں۔ پی ٹی آئی رہنما نے تسلیم کیا کہ احتجاج کے ذریعے موجودہ نظام ختم کرنے یا اسے کمزور کرنے کی پی ٹی آئی کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد پارٹی نے عدالتی دبائو اور بین الاقوامی پریشر کا راستہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پارٹی قیادت کا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ عدلیہ اپنی غیر جانبداری کھو چکی ہے، جبکہ امریکہ سمیت غیر ملکی حکومتوں نے عمران خان کے معاملے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نوجوانوں اور شہری متوسط طبقے میں پی ٹی آئی اب بھی مقبول ہے۔ تاہم اس عوامی حمایت سے اب تک کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکا کیونکہ فوج کے ساتھ براہِ راست تصادم کی عمران خان کہ پالیسی غلط ثابت ہوئی۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ فوجی اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے کسی قسم کی کوئی ڈیل نہیں ہو پا رہی۔ فوجی قیادت بھی اب عمران خان کی جانب سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ دشمنی میں پاکستانی مفادات کے خلاف جانے کی وجہ سے کسی قسم کے مذاکرات کے موڈ میں نہیں۔
شیر افضل مروت نے بشری بی بی اور علیمہ خان کو بھی نشانے پر لے لیا
پی ٹی آئی کیلئے پریشان کن بات یہ ہے کہ مفاہمت کی خواہشات کے باوجود پارٹی کے بانی چیئرمین نے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کیلئے پارٹی کے سوشل میڈیا بریگیڈ کو فوج کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کرنے سے منع نہیں کیا۔ اسکے برعکس، پارٹی کے سوشل میڈیا بریگیڈ کا فوجی قیادت خصوصا آرمی چیف کے خلاف بیانیہ اور بھی سخت ہو گیا ہے جس سے معاملات مزید خراب ہونے کا امکان ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کی اکثریت کا خیال ہے کہ پارٹی کو جذباتیت چھوڑ کر عملی نقطہ نظر اختیار کرنا چاہئے: اسے اپنے قیدی بانی کیلئے قلیل مدتی ریلیف حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، اسکے علاوہ پارٹی کو نچلی سطح پر دوبارہ منظم کرتے ہوئے آئندہ عام انتخابات کیلئے تیاری شروع کر دینی چاہیئے۔ تاہم دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان اپنی اسٹیبلشمنٹ مخالف حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے تصادم کی بجائے بقائے باہمی کا راستہ اپناتے ہیں یا نہیں؟