قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو جھاڑو پھر گیا، نمائندگی ختم

مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے حتمی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کا وجود عملا ختم ہو گیا ہے اور حکومتی اتحاد کو دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی جس کے بعد وہ قانون سازی کے لیے دیگر  سیاسی جماعتوں کی مرہون منت نہیں رہی۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے مخصوص نشستوں کے کیس کا حتمی فیصلہ آنے کے بعد صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی ہے۔ پارٹی پوزیشن میں ممکنہ تبدیلی کے بعد ن لیگ، پیپلز پارٹی، اور جے یو آئی کو ان سے واپس لی جانے والی نشستیں تحریک انصاف سے چھین کر واپس لوٹائی جانے والی ہیں۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے نئی پارٹی پوزیشن کے مطابق پی ٹی آئی کے تمام 80 اراکین قومی اسمبلی کو اب سنی اتحاد کونسل کا رکن ظاہر کیا جائے گا، اس سے پہلے 39 اراکین قومی اسمبلی کو تحریک انصاف اور 41 کو آزاد اراکین قرار دیا گیا تھا۔ یوں اب قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کو جھاڑو پھر گیا ہے اور اس کا ایک بھی رکن نہیں رہا۔

عدالتی فیصلے کی رو سے حکومتی اتحادی جماعتوں کو اب الیکشن کمیشن کی جانب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں مجموعی طور پر 77 نشستیں ملیں گی۔ یوں قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہو جائے گی جبکہ دو تہائی اکثریت کے لئے 224 ارکان درکار ہوتے ہیں۔ اب الیکشن کمیشن حکومتی اتحاد کو مخصوص نشستیں تفویض کرنے کے لئے دوبارہ فہرستیں جاری کرے گا۔

یاد رہے کہ جب جولائی 2024 میں سپریم کورٹ نے آزاد اراکین کو پی ٹی آئی سے وابستگی کا سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر تحریک انصاف کے اراکین  تسلیم کیا تھا تو حکومتی وزرا اور مشیروں نے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے آئین دوبارہ تحریر کرنے کے مترادف قرار دیا تھا۔ ان کا مؤقف یہ تھا کہ اپیل تو سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر کی گئی تھی مگر عمرانڈو قرار پانے والے جسٹس منصور علی شاہ اور ان کے ساتھی ججز کی جانب سے ریلیف تحریک انصاف کو دے دیا گیا۔حکومت نے اسے ایک سیاسی فیصلہ قرار دیتے ہوئے چیلنج کر دیا تھا جس کا اب نتیجہ سامنے آ گیا یے۔

واضح رہے سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دائر اپیل پر 31 مئی کو دستیاب ججز کا فل کورٹ بینچ تشکیل دیا جس نے کیس کی 9 سماعتیں کیں اپیل کی سماعت کے دورن سنی اتحاد کونسل کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ مجموعی طور پر 77 مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیے تھیں مگر دیگر جماعتوں کو دے دی گئیں۔

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے حتمی فیصلے کے بعد اب حکومت کو آئینی ترامیم کے لیے کسی اور سیاسی جماعت کی خوشامد نہیں کرنی پڑے گی، یوں اب مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت العلمائے اسلام کی ویٹو پاور بھی ختم ہو گئی ہے۔ مخصوص نشستوں کے کیس کے فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو دوبارہ دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد گنڈا پور سرکار گرنے کا امکان

تاہم تحریک انصاف کے لیے اچھی خبر یہ ہے کہ اب خیبر پختونخوا سے سینیٹ کی نشستوں کے لیے الیکشن کا انعقاد ہو گا جس کے نتیجے میں ایوان بالا میں تحریک انصاف کے ارکان کی تعداد تیسرے نمبر پر آ جائے گی۔ لیکن بری خبر یہ ہے کہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور کی خیبر پختونخوا حکومت اکثریت کھونے کے سنگین خطرے سے دوچار ہو گئی ہے۔

عدالتی فیصلے سے تحریک انصاف قومی اسمبلی سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عددی لحاظ سے سکڑ گئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اب حکمران اتحاد آئین میں 26ویں ترمیم کے اصل مسودے کے مطابق اعلیٰ ترین آئینی عدالت قائم کر سکے گا جسے پیپلزپارٹی کی قیادت جناح کی خواہش بتاتے ہوئے تقاضا کرتی ہے۔

Back to top button