گنڈاپورکی جانب سے کالاباغ ڈیم کی حمایت پرپی ٹی آئی تقسیم

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخواہ علی امین گنڈاپور کی جانب سے کالاباغ ڈیم کی حمایت کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف میں تقسیم پیدا ہوگئی۔ جہاں نون لیگ ڈٹ کر گنڈاپور کے ساتھ کھڑی ہو گئی ہے وہیں پی ٹی آئی رہنما وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف کھل کر میدان میں آ گئے ہیں۔ سابق سپیکر اسد قیصر نے کالا باغ ڈیم کو مردہ گھوڑا کہہ کر اس کی مخالفت کر دی جبکہ چئیرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر خان نے کالا باغ ڈیم کی حمایت کو گنڈاپور کا ذاتی بیان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم کے معاملے پر سیاست تو ہو سکتی ہے تاہم ڈیم کی تعمیر بھی ملک کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے نہیں بچا سکتی۔ تاہم وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کی جانب سے کھلے الفاظ میں کالاباغ ڈیم کی حمایت نے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر کالاباغ ڈیم کو موضوع بحث بنا دیا ہے۔ جہاں ایک طرف لیگی رہنما گنڈاپور کی آواز سے آواز ملاتے نظر آتے ہیں وہیں دوسری جانب پیپلز پارٹی، اے این پی اور جے یو آئی ف نے کالاباغ ڈیم کی سخت مخالفت شروع کر دی ہے۔

خیال رہے کہ کالا باغ ڈیم کے منصوبہ پر ہر دور میں بات ہوتی رہی ہے تاہم سیاسی جماعتوں کے تنازعات کی وجہ سے اس منصوبے پر خطیر رقم خرچ کرنے کے باوجود کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے تاہم حالیہ دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں کے دوران ایک بار پھر کلا باغ ڈیم موضوع بحث اس وقت بنا جب وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے پیر کو ایک ویڈیو بیان میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کو ملک کے وسیع تر مفاد میں قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کردی۔ مبصرین خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ کی جانب سے کالا باغ ڈیم کی تائید کو ایک نمایاں تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا کے کسی نمایاں سیاسی رہنما اور ایگزیکٹو اتھارٹی نے اس متنازعہ آبی منصوبے کی کھل کر حمایت کی ہے۔ تاہم ماہرین کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی کالا باغ ڈیم کی حمایت زیادہ تر علامتی رہے گی کیونکہ وہ اپنے موقف کے حق میں اپنی پارٹی کی حمایت ہی حاصل کرنے میں ناکام ہیں کیونکہ پی ٹی آئی رہنماؤں نے گنڈاپور کے بیان کی سخت مخالفت کر دی ہے۔

اس حوالے سے سابق سپیکر اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ’کالا باغ ڈیم بنانے کی حمایت بارے علی امین گنڈا پور کا بیان ان کی ذاتی رائے ہے پاکستان تحریک انصاف بطور جماعت اس فیصلے پر ان کی حمایت نہیں کرتی اور نہ ہی اس معاملے پر ان کے ساتھ کھڑی ہے۔‘اسد قیصر کا کہنا ہے کہ ’کالا باغ ڈیم ایک مردہ گھوڑا ہے اس پر صرف سیاست ہو سکتی ہے تاہم سیاسی اتفاق رائے تک اس کی تعمیر ناممکن ہے۔ پی ٹی آئی ایسے کسی فیصلے کی حمایت نہیں کرے گی جس پر سب کی متفقہ رائے نہ ہو۔‘

تاہم لیگی رہنما خواجہ آصف نے علی امین گنڈا پور کے بیان کو ’خوش آئند‘ قرار دے دیا ہے۔وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم بہت بڑے بحران سے گزر رہے ہیں۔ ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں ہے، کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ملک میں بڑا آبی ذخیرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ صرف سیاسی وجوہات پر پی ٹی آئی کو علی امین گنڈا پور کے بیان کی مخالفت نہیں کرنی چاہیے۔‘پس پردہ تمام سیاسی جماعتوں سے مشورہ کر کے اس معاملے پر ایوان میں مباحثہ کروانا چاہیے۔

مسلم لیگ ن کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی علی امین گنڈا پور کے بیان کی سخت مخالفت کر دی ہے۔ پیپلز پارٹی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پیپلز پارٹی کالا باغ ڈیم کے فیصلے کی حمایت کرے۔’ویسے بھی ملک میں پہلے ہی انتشار ہے تو ایسا موضوع چھیڑا جا رہا ہے جس پر سب متفق نہیں ہو سکتے۔‘ جبکہ عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام نے بھی کالا باغ ڈیم کی مخالفت کردی ہے ۔ اے این پی کے مرکزی صدر سینیٹر ایمل ولی خان کا کہنا ہے کہ نہ صرف ہم کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرینگے بلکہ ہماری نسلیں بھی کالا باغ ڈیم نہیں بنانے دیں گی ۔

تاہم یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان جیسے ملک میں، جہاں ہر سال سیلاب کی شکل میں پانی تباہی مچاتا ہے اور دوسری طرف پانی کی کمی زراعت کو مفلوج کرتی ہے، وہاں محض سیاسی اختلافات کی بنیاد پر کسی قومی منصوبے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دینا دانشمندی ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم کے نام سے مسئلہ ہے تو نام بدل دیں مگر اس وقت پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنا ناگزیر ہے کیونکہ پانی جیسے قیمتی وسائل سیاسی انا اور صوبائی تعصب کی نذر ہوتے جا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق کالا باغ ڈیم صرف ایک انجینئرنگ منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی ناپختگی اور تقسیم کی جیتی جاگتی علامت بن چکا ہے۔ علی امین گنڈاپور پارٹی مخالفت کے باوجود کالا باغ ڈیم منصوبے کی حمایت ایک علامتی پیش رفت ہےیہ حمایت اس وقت تک بامعنی نہیں جب تک کالا باغ ڈیم بارے وفاقی اور صوبائی سطح پر سنجیدہ قومی ڈائیلاگ شروع نہ کیا جائے۔ بصورتِ دیگر، پاکستان ہر سال وہی پرانا سبق دہراتا رہے گا: سیلاب آتے رہیں گے، پانی ضائع ہوتا رہے گا، اور ہم صرف سیاست کرتے رہیں گے۔

خیال رہے کہ میانوالی کے پیر پہائی نامی گاؤں کے قریب 1950 میں کالاباغ ڈیم کے منصوبے پر غور کیا گیا تھا جبکہ کالا باغ ڈیم پر حقیقی معنوں میں کام جنرل ضیا الحق کے دور میں شروع ہوا۔جنرل ضیا الحق کے دور میں خصوصی طور پر ڈیموں کے ماہر ڈاکٹر کنیڈی نے اپنی رپورٹ پیش کی جس کے مطابق اس ڈیم کی اونچائی 925 فٹ ہو گی۔یہ ڈیم پورے ملک کے 50 لاکھ ایکڑ بنجر رقبے کو سیراب کرے گا اور پانچ ہزار میگا واٹ تک بجلی حاصل کی جا سکے گی۔ اس کی تعمیر میں زیادہ سے زیادہ پانچ سال اور کم سے کم تین سال کا عرصہ لگنا تھا۔ ابتدائی طور پر کالا باغ ڈیم کے منصوبے کی تعمیر کی لاگت کا تخمینہ پانچ ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو اب بڑھ کر 20 ارب ڈالر سے بھی زائد ہو چکا ہے۔صوبہ سندھ، صوبہ بلوچستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کی حکومتیں اس ڈیم کی تعمیر کے خلاف کئی متفقہ قراردادیں پاس کر چکی ہیں۔خیبر پختونخوا کا پہلے اعتراض یہ تھا کہ کالا باغ ڈیم کے موجودہ ڈیزائن سے نوشہرہ شہر ڈوب جائے گا۔ تاہم اب وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا کالا باغ ڈیم کی حمایت میں کھل کر سامنے آ گئے ہیں۔

Back to top button