پنجابیوں کو بزدل اور موقع پرست قرار دینے والے سراسر غلط کیوں ہیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے گلہ کیا ہے ہمارے بلوچ، سندھی اور پختون بھائیوں نے پنجابیوں کو ہمیشہ بزدل، ظالم، استحصالی اور موقع پرست قرار دینے کا وطیرہ اپنا رکھا یے۔ یہ رسم بن گئی ہے کہ پختون تو بڑے بہادر ہیں لیکن پنجابی بزدل ہیں، بلوچ تو قابل فخر روایات کے حامل ہیں لیکن پنجابی تو شکست خوردہ اور خوشامدی ہیں۔ سندھی بھائی بھی پنجابیوں کو نہیں بخشتے اور ہر غلطی کا ذمہ دار انہیں ہی قرار دیتے ہیں۔ انہی رویوں کا نتیجہ ہے کہ کراچی میں پنجابیوں کو چن چن کر مارا گیا، اور اندرون سندھ سے نکال دیا گیا۔ اب بلوچستان میں لڑائی تو ریاست سے ہو رہی ہے لیکن بدلہ معصوم، مزدور اور غریب پنجابیوں کو قتل کر کے لیا جا رہا ہے۔
سہیل وڑائچ سوال کرتے ہیں کہ کیا کیا کبھی پنجابیوں نے کسی مہاجر، پختون، سندھی یا بلوچ کے ساتھ ایسا متعصبانہ سلوک کیا یے؟ اگر نہیں تو پھر غریب پنجابیوں سے پی بدلہ کیوں کیا جاتا یے؟ اگر فوج صرف پنجاب کی ہے تو پھر اس میں پشتون اور بلوچ جرنیل کیوں ترقی پاتے ہیں؟ پختونخوا میں بھی پنجاب کیخلاف نفرت عام ہے۔ وہاں بھی کوئی قومی انتہا پسند پیدا ہو گیا تو پنجابیوں کا جینا حرام ہو جائیگا حالانکہ پنجاب کے شہر اور دیہات میں ہر جگہ پشتون آباد ہیں اور کبھی کسی پنجابی نے انکے روزگار اور ان کی ترقی پر اعتراض نہیں کیا۔
اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہتے ہیں کہ ذاتی طور پر مجھے احساس ہے کہ پنجابی جرنیلوں، ججوں اور جغادری سیاستدانوں نے چھوٹے صوبوں کا استحصال کیا ہے اور انکی بہت سی محرومیوں اور پسماندگی کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔ احساسِ گناہ کے زیراثر میں نے تمام صوبوں کے قوم پرست رہنمائوں سے 1997ء سے انٹرویو شروع کئے، میں نے انکی محرومیوں اور ان کیساتھ رکھے جانیوالے ناروا سلوک پر گاہےگاہے اپنی نحیف آواز بھی بلند کی۔ جب بھی موقع ملا سندھ، بلوچستان اور پختونخواہ کیساتھ برابری بلکہ ترجیحی سلوک کرنے کی بات بھی کی۔ اپنی 40 سالہ صحافت میں ہمیشہ کوشش کی کہ کسی کو اسکی قوم، قبیلے، مذہب یا فرقے کی بنیاد پر تعصب کی نظر سے نہ دیکھوں۔ لیکن آج حرفِ شکایت زبان پر لانا پڑ گیا ہے۔
پنجابیوں کو بزدل، ظالم کہاجاتا ہے،سہیل وڑائچ
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ہمارے بلوچ، سندھی اور پختون بھائیوں نے یہ ریت اپنا لی ہے کہ پنجابیوں کو بزدل، ظالم، استحصالی اور موقع پرست کہا جائے۔ انکے مطابق مجھے گزشتہ چار دہائیوں سے تمام بڑے قوم پرست رہنمائوں سے ملاقات، مکالمے اور انٹرویوز کا موقع ملا ہے۔ خان عبدالولی خان، اجمل خٹک، عطا اللہ مینگل، رسول بخش پلیجو، ممتاز بھٹو، حفیظ پیرزادہ اور محمود اچکزئی سمیت قریباً تمام بڑے ناموں کے انٹرویوز کئے اور بعض اوقات نامساعد حالات کے باوجود انہیں نشر یا شائع بھی کیا گیا۔
اپنے اس پس منظر کے باوجود میں یہ سمجھتا ہوں کہ قوم پرست لیڈر شپ نے گو خود کبھی ہتھیار نہیں اٹھائے لیکن انہوں نے بڑھتی ہوئی نفرت کو روکنے کا بھی کوئی چارہ نہیں کیا بلکہ قومی تعصبات کو پنجابیوں کا مذاق اڑا کر شہ دیتے رہے حالانکہ پنجابی بھی اتنے ہی بہادر یا بزدل ہیں جتنی باقی قومیں۔ تاہم تعصب میں پنجابیوں کو ہر ریاستی ظلم کا ذمہ دار قرار دیکر یہ نفرتیں بڑھائی گئیں اور اب اسکا نتیجہ سامنے آ چکا ہے۔
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں آپریشن رکنے میں نہیں آ رہا، پختونخواہ میں آگ اور خون کا کھیل جاری ہے، سندھی بقول بانی ایم کیو ایم الطاف حسین سب قوموں سے عقلمند سیاستدان ہیں اسلئے وہ جب چاہیں قومی دھارے میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب چاہیں پنجاب کیخلاف شکایات کا دفتر کھول دیتے ہیں، اس پالیسی کی وجہ سے سندھ میں کوئی خانہ جنگی ،کوئی آپریشن نہیں۔ پنجابیوں کیخلاف جو الزام تواتر سے لگایا جاتا ہے اور جسے بہت سے پنجابی بھی تسلیم کر لیتے ہیں وہ ہے حملہ آوروں کیخلاف مزاحمت نہ کرنا اور بزدلی دکھانا۔ اول تو بین الاقوامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو یہ الزام انتہائی بے بنیاد ہے، انگریز جو آدھی دنیا کے حکمران رہے انکے ملک پر جرمن اور فرانسیسی قابض رہے، جرمن خود کو سب سے بہادر سمجھتے تھے انہیں عبرتناک شکست ہوئی، جاپانی سب سے لڑاکے تھے وہ بھی ہارے، تحریری تاریخ کے مطابق پنجاب میں سب سے پہلی جنگ سکندر اعظم یونانی سے ہوئی، سکندر بلوچستان سے گزرا کوئی مزاحمت نہ ہوئی وہ ٹیکسلا پہنچا تو وہاں کے حکمران امبھی کمار نے مزاحمت کئے اور لڑے بغیر سکندر اعظم کی اطاعت کر لی۔
خیبرپختونخواٹیکسلامیں شامل تھا،لکھاری
سہیل وڑائچ یاد دلاتے ہیں کہ ٹیکسلا کی ریاست میں آج کا پختونخواہ بھی شامل تھا پھر امبھی اور سکندر نے ملکر دریائے جہلم عبور کرکے پنجابی راجہ پورس پر حملہ کیا۔ پورس بہادری سے لڑا سکندر اعظم نے مصلحت یا پھر اسکی بہادری کے پیش نظر اسے دوبارہ حکمرانی دیدی، سکندر اعظم اور پورس کی لڑائی کا ذکر یونان کی تاریخوں میں آج بھی موجود ہے۔ محمود غزنوی نے پنجابی حکمران اجے پال کو جنگ میں شکست دی تو اُس نے لاہور واپس آ کر ندامت کے باعث سرعام خودکشی کرلی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے سارے پختونخواہ اور افغانستان تک فتح کے جھنڈے گاڑے، پھر انگریزوں کیخلاف آخری خوفناک لڑائی جنرل شیر سنگھ نے لڑی اور انگریزی فوج کو اس قدر نقصان اٹھانا پڑا کہ اسے اپنی فوج کا سربراہ تبدیل کرنا پڑ گیا۔
پنجابی کسی قوم سے بلند تر ہیں نہ کسی سے کم
سینیئر صحافی کا کہنا ہے کہ یہ چند واقعات پنجابیوں کو بہادر ثابت کرنے کیلئے نہیں بلکہ یہ ثابت کرنے کیلئے لکھے گئے کہ قومیں کبھی فتح یاب ہوتی ہیں تو کبھی شکست بھی کھا جاتی ہیں، نہ پنجابی کسی اور قوم سے بلند تر ہیں اور نہ کسی سے کم تر ہیں۔ بلوچ، سندھی اور پشتون انگریزوں کی طرف سے جھوٹی اور بے بنیاد تحقیقی کتابوں کے ذریعے سے مصنوعی ہوا بھرنے سے اپنے آپ کو عظیم سمجھنے لگے ہیں حالانکہ انگریز، نپولین اور ہٹلر سمیت جس جس سے لڑے اسے چھوٹا بنانے کی کوشش کی، یہی پنجابیوں اور انکے ہیروز کیساتھ بھی ہوا۔ انگریز جرنیلوں نے جان بوجھ کر تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے پنجابیوں کو بزدل اور باقی قوموں کو بہادر قرار دیا۔ پنجاب کے دلی دربار سے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں تھے، اسی لئے دُلے بھٹی پیدا ہوتے تھے۔ آخر میں عرض یہ ہے کہ ہم نے اپنے بابے کو اوپر رکھنے کے چکر میں نفرتوں کو فروغ دیا ہے۔ ماضی کے جھگڑوں سے نکل کر حال اور مستقبل کو سنوارنا ہو گا بلوچ ہوں یا پنجابی، پختون ہوں یا سندھی، اپنے آپ کو برتر نہ سمجھیں اور دوسروں کو برا نہ جانیں، انائوں میں مصنوعی ہوا بھرنے کی بجائے برابری اور احترام سے چلیں یہ نہ ہو کہ پنجاب میں اس نفرت کا ردعمل شروع ہو جائے۔
سہیل وڑائچ وارننگ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کے سابق گورنر شاہد حفیظ کاردار اعدادو شمار سے ثابت کر چکے ہیں کہ سینٹرل پنجاب ہی پورے ملک کا معاشی انجن ہے۔ اگر اس انجن نے تنگ آ کر اپنی بوگیوں میں خوش حالی کی تقسیم بند کر دی تو پھر سب ہاتھ ملتے رہ جائینگے۔ پنجابیوں نے تو اپنی مادری پنجابی زبان، اپنے مقامی ہیروز اور اپنی تاریخ تک ملکی مفاد پر قربان کر دی ہے لہازا پنجاب سے اور کیا قربانی درکار یے؟