سپیکر پنجاب اسمبلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد خارج کر دی گئی

پنجاب اسمبلی کے سپیکر چوہدری پرویز الٰہی کیخلاف تحریک عدم اعتماد تکنیکی بنیادوں پر خارج کر دی گئی ہے۔

صوبائی اسمبلی پنجاب کا ہنگامہ خیز اجلاس چوہدری پرویز الٰہی کی صدارت میں مقررہ وقت کے برعکس دو گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تھا جوچند منٹوں کی کارروائی کے بعد 6 جون تک ملتوی کردیا گیا،اجلاس سے قبل اسمبلی کے باہر سیکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، تاہم اراکین صوبائی اسمبلی کو بھی ایوان میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

ن لیگ کے رہنما عطااللہ تارڑ نے میڈیا سےگفتگو میں کہا تھا کہ پرویز الٰہی کے احکامات پر اسمبلی کے دروازے بند کیے گئے ہیں، کسی صحافی یا رکن صوبائی اسمبلی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دی جارہی ہے، یہ کوئی گجرات کا ضلعی کونسل نہیں ہے، یہ 12کروڑ افراد کا مرکز ہے،یہ ایوان کا تقدس پامال کرنے کے ’عادی‘ ہوگئے ہیں، آپ کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے اور آئین کے تحت عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد 7 روز کے دوران اجلاس بلانا لازم ہے۔

پیپلز پارٹی کےرہنما سید حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ صرف پی ٹی آئی کے اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے کی اجازت دی جارہی ہے۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ایسا طریقہ کار استعمال کیا جارہا ہے کہ کوئی ’حادثہ‘ رونما ہوسکے اور قانون سازوں کو نا اہل قرار دیا جائے۔

سپیکر پنجاب اسمبلی پرویزالٰہی اسمبلی کے باہر میڈٰیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت کسی کی حکومت نہیں ہے، اسمبلی باپ بیٹے کے کہنے پر بند کی گئی ہے،یہ کیفرکردار تک پہنچنے کے بہت قریب ہیں، ہمارے لوگوں نے انکو ایک دھکا دینا ہے اور یہ اقتدار سے باہر ہونگے۔

انکا کہناتھااجلاس بھی ہوتے رہیں گے اور قانون سازی بھی ہوتی رہے گی،آج نئے ارکان آ رہے ہیں انکا حلف بھی ہو گا اور نوٹیفیکیشن بھی ہوگا، پولیس ہو یا کوئی بھی جو اس آئینی اقدام کو روکے گا اس پر آرٹیکل 6 لگے گا۔

دریں اثنا دن کے آغاز پر پنجاب اسمبلی کا غیر متوقع اجلاس شروع ہونے سے قبل پولیس نے صوبائی اسمبلی کے پارلیمانی امور کے عہدیدار کو حراست میں لے لیا گیا تھا،ترجمان پنجاب اسمبلی نے ڈائریکٹر جنرل پارلیمانی امور رائے ممتاز کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ پولیس اہلکار دیواریں پھلانگ کر رائے ممتاز کے گھر میں داخل ہوئے۔ان کا الزام تھا کہ پولیس اہلکاروں نے پنجاب اسمبلی کے سیکریٹری کوآرڈینیشن محمد خان بھٹی عنایت اللہ لَک کے گھر پر بھی چھاپہ مارا مگر انہیں گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔

قبل ازیں سپیکر چوہدری پرویز الہٰی نے پولیس کی کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سب وزیر اعظم شہباز شریف کے حکم پر کیا جارہا ہے، اورحکومت کے مبینہ اقدام کو ’فاشسٹ‘ قرار دیا تھا۔

پرویز الٰہی کا کہنا تھا ایوان کا تقدس پامال کرنے کے بعد حکومت نئے طریقوں کا استعمال کر رہی ہے،پنجاب اسمبلی کے عہدیداران کے خلاف کارروائی سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حکومت ’خوفزدہ‘ ہے، غیر آئینی اور جعلی حکومت آئین و قانون کے خلاف اقدامات اٹھا رہی ہے، شریفوں کا ’حقیقی چہرہ‘ عوام کے سامنے بے نقاب ہوگیا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے پنجاب اسمبلی کےعہدیدار کی گرفتاری کوآئین کی پامالی قرار دیاتھا۔

دریں اثنا رکن صوبائی اسمبلی اشرف رسول نے سیکریٹری پنجاب اسمبلی محمد خان بھٹی سیکریٹری کوآرڈینیشن عنایت اللہ اور ڈی جی پارلیمانی امور رائے ممتاز کے خلاف مقدمہ درج کروا دیا تھا۔

اشرف رسول کی جانب سے درج مقدمے میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ گزشتہ روز صبح 10 بجے گھر پر موجود تھا کہ 5 افراد نامعلوم ایک گاڑی پر میرے گھر آئے، باہر آکر دیکھا تو عنایت اللہ اور رائے ممتاز اسلحہ کے ساتھ میرے گھر کے باہر موجود تھے۔ شکایت کنندہ نے مزید کہا تھا کہ محمد خان عنایت اللہ اور رائے ممتاز نے مجھ پر بندوق تان دی اور محمد خان بھٹی نے کہا کہ آپ میرا پیچھا چھوڑ دیں،اگر میری مخالفت سے باز نہ آئے تو جان سے مار دوں گا،دیگر چاروں ساتھیوں نے بھی مجھے سنگین نتائج کی دھمکی دی اور واپس چلے گئے، پنجاب اسمبلی میں ضلع منڈی بہائو الدین اور دیگر علاقوں سے من پسند لوگوں کی بھرتیاں کیں جس پر پنجاب اسمبلی میں آواز بلند کررکھی ہے۔ایک ٹویٹر پیغام میں انکا کہنا تھا پنجاب اسمبلی کا اجلاس پولیس کی یلغار سے روکنا آئین کی پامالی ہے۔ انہوں نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے عدلیہ سے فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ۔

پنجاب کے سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ نے بھی اقدام پر تنقید کی، انہوں نے کہا کہ ’آج پھر سسیلین مافیا پنجاب اسمبلی میں غنڈہ گردی اور آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا رہا ہے۔ٹویٹر پیغام میں انکا کہنا تھاموجودہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں جاری آئینی و قانونی بحران کے ذمہ دار وزیر اعظم اور ان کے بیٹے ہیں،دونوں باپ بیٹا خانہ جنگی کروا کر سیاسی شہید بننا چاہتے ہیں، جمہوریت کو نقصان ہوا تو پی ڈی ایم ذمہ دار ہوگی۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز پرویز الہٰی نے صوبائی اسمبلی کا اجلاس30 مئی کے بجائے آج (اتوار) بلانے کا اعلان کیا تھا، یہ اعلان اپنی پارٹی کی ہدایت کے خلاف حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے 25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے فیصلے کے بعد سامنے آیا تھا۔ہفتے کی شام تک کوئی باضابطہ ایجنڈا جاری نہیں کیا گیا تھا، تاہم اسپیکر صوبائی اسمبلی چوہدری پرویز الہٰی کی جانب سے فوری کارروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ نمبرز گیم اب ان کے بطور وزیر اعلیٰ انتخاب کے لیے موزوں ہے۔

واضح رہے کہ25 منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کرنے کے بعد صوبائی اسمبلی کے اراکین موجودہ تعداد 346 ہے، جس میں 165 مسلم لیگ (ن) کے اراکین ہیں، جن میں 5 اراکین کا تعلق شرقپوری گروپ سے جنہوں نے حال میں مسلم لیگ (ن) کے اپنی حمایت ختم کی ہے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنے اراکین کی تعداد 160 ہے، صوبائی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے 7 اراکین موجود ہیں جبکہ آزاد اراکین کی تعداد 4 ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے مسلم لیگ (ن) کے پاس ووٹوں کی تعداد 172 ہے۔

ادھر مسلم لیگ (ق) چوہدری پرویز الہٰی اور ان کے اتحادی پی ٹی آئی کی مجموعی تعداد 168 ہے لیکن پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے اتحاد کا ماننا ہے کہ وہ خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں سے ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائیں گے، جبکہ مسلم لیگ (ن) کا دعویٰ ہے کہ 2 مخصوص نشستیں ان کے حصے میں آئیں گی۔

Related Articles

Back to top button