سپریم کورٹ آئینی خلاف ورزی کو جائز قرار نہیں دے گی


صدر عارف علوی کی جانب سے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اس وقت پاکستان عملاً ایک آئینی اور انتظامی بحران کی زد میں ہے اور پوری قوم کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ کی جانب لگی ہیں، صورتحال سپریم کورٹ کے فیصلہ سے واضح ہوگی تاہم زیادہ امکان یہی ہے کہ سپیکر، وزیراعظم اور صدر کے اقدامات کو غیر آئینی اور بد نیتی پر مبنی قرار دے دیا جائے گا کیونکہ واضح آئین شکنی کی کوئی بھی توجیح پیش نہیں کی جاسکتی۔ 4 اپریل کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران حکومتی وکیل بابر اعوان نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو بتایا کہ مجھے وزیراعظم کی طرف سے کہا گیا یے کیا عدالت کو بتائیں کہ ہم نئے الیکشن کے لئے تیار ہیں، اس پر چیف جسٹس بولے کہ آپ سیاسی گفتگو نہ کریں، ہم اس وقت آئینی معاملات کی سماعت کر رہے ہیں۔
تاہم دوسری جانب حکومت کی طرف سے نئے الیکشن کی تجویز بھی موضوع بحث بنی ہوئی ہے۔ سینئر صحافی حامد میر کا کہنا ہے کہ سپیکر وزیراعظم اور صدر نے واضح آئین شکنی کی ہے اور اگر ان کے غیر قانونی اقدامات کو عدالتوں نے ریورس نہ کیا تو پاکستانی آئین کی پامالی کا سلسلہ طویل ہو جائے گا۔ تاہم معروف صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا بنیادی مقصد بھی عمران خان کو نکالنا اور نئے الیکشن کی طرف جانا تھا لہذا اب جبکہ ان کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور وہ نئے الیکشن کی بات کر رہے ہیں تو ماضی کو چھوڑ کر مستقبل کی طرف بڑھنا چاہیے۔ لیکن حامد میر کا موقف ہے کہ آئین شکنی کوئی مذاق نہیں جس سے صرف نظر کر کے آگے بڑھا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین شکنی کرنے والوں کا قانون کے مطابق محاسبہ ہونا چاہیے تاکہ آئندہ کوئی شخص ایسی حرکت کرنے کا سوچے بھی نہ۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیس اس وقت سپریم کورٹ کے لیے بھی بڑا امتحان ہے چونکہ اسکے پاس آئین شکنی کا کوئی بھی قانونی جواز پیش کرنا ممکن نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ ایک آئینی معاملے پر سیاسی فیصلہ دے سکتی ہے۔
تجزیہ کاروں کے خیال میں اہم بات یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کر رہے تھے جس پر 3 اپریل کو ووٹنگ کروانے کی آئینی ڈیڈ لائن تھی لہذا ان کے پاس قومی اسمبلی توڑنے کا آئینی اختیار موجود نہیں تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کیے جانے کے بعد بھی قانونی طور پر وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے اور تب ہی وہ قومی اسمبلی توڑنے کرنے کا حکم جاری کر سکتے ہیں۔ لیکن اس معاملے میں سپیکر قومی اسمبلی نے عمران خان کو بچانے کے لیے نہ صرف 117 اراکین قومی اسمبلی کو غدار قرار دے دیا بلکہ انہیں غیر ملکی طاقتوں کا آلہ کار بھی قرار دے دیا حالانکہ نہ تو مبینہ دھمکی آمیز خط کی کوئی تحقیقات کی گئیں اور نہ ہی کوئی نتیجہ سامنے آیا تھا جس کی بنیاد پر سپیکر تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کا فیصلہ دیتے۔
یاد رہے کہ 27 مارچ کو اسلام آباد میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ اُن کی حکومت کو ایک غیر ملک کی طرف سے خط کی صورت میں تحریری طور پر دھمکی دی گئی ہے۔ اتوار کو جب قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو وفاقی وزیرِ قانون فواد چوہدری نے اسمبلی کی توجہ اس جانب دلائی اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی سے مطالبہ کیا کہ وہ اس تحریکِ عدم اعتماد کو خارج کر دیں کیونکہ یہ غیر ملکی ایما پر لائی گئی ہے۔
اس کے بعد ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے رولنگ جاری کرتے ہوئے اجلاس کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا اور اس کے بعد وزیرِ اعظم عمران خان نے صدرِ مملکت کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کر دی جسے صدر نے منظور کر لیا۔ حالانکہ اس وقت قومی اسمبلی تحلیل ہو چکی ہے لیکن وزیرِ اعظم اب بھی اپنے عہدے پر موجود ہیں اور اگلے چند روز تک وہ مذید وزیرِ اعظم رہیں گے۔ وہ کم از کم اگلے تین دن تک تو وزیرِ اعظم رہیں گے، اور زیادہ سے زیادہ یہ معاملہ آٹھ سے نو دن پر محیط ہو سکتا ہے۔
ماہرِ قانون سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کا اپنا عہدہ تو ابھی موجود ہے جب تک کہ نگران سیٹ اپ نہیں آ جاتا، تاہم اگر سپریم کورٹ یہ کہے کہ سارا عمل ہی غلط ہوا ہے اور معاملات کو وہیں جانا چاہیے جہاں وہ سپیکر کی رولنگ سے قبل تھے تو پھر تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو گی اور اس کے بعد جو بھی صورت حال ہو گی اس پر دیکھنا ہو گا۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ اگر سپریم کورٹ کہتی ہے کہ ہم مداخلت نہیں کرتے تو کیا ہو گا؟ اس سوال پر سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ پھر نگران وزیرِ اعظم کی تعیناتی کا طریقہ کار اپنانا پڑے گا۔
آئین کی شق 224 کے تحت اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ختم ہونے والی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم نے باہمی مشاورت سے کسی ایک نام پر متفق ہونا ہوتا ہے۔ اور اس کام کے لیے اُن کے پاس اسمبلی کے تحلیل سے لے کر صرف تین دن کا وقت ہوتا ہے۔ ایک بار ان کے نام پر اتفاق ہو جائے تو صدرِ پاکستان اس نام کی منظوری دیتے ہیں اور جب تک نگران وزیرِ اعظم نہ آ جائے، اس وقت تک عمران خان ہی وزیرِ اعظم رہیں گے۔ وزیراعظم عمران خان نے پہلے ہی شہباز شریف کو خط لکھ دیا ہے تاکہ نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہو سکے لیکن شہباز شریف نے اسے مسترد کرتے ہوئے جواب دینے سے انکار کر دیا ہے۔
قومی اسمبلی کی تحلیل اور وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو ڈپٹی سپیکر کی جانب سے مسترد کرنے کا معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے اسلئے کئی سوالوں کا جواب سپریم کورٹ کے فیصلہ سے ملے گا جس کا سب کو انتظار ہے تاہم آئین کے تحت جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے اور حکومت ختم ہوتی ہے تو نگران حکومت قائم کی جاتی ہے جو 90 دنوں میں انتخابات کراتی ہے۔ نگران حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی ذیلی شقوں کے مطابق اگر شق 58 کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جائے، تو صدرِ مملکت وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم تعینات کریں گے. تاہم یہ تعیناتی صدرِ کا اختیار نہیں بلکہ یہ قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم کے اتفاق کے بعد عمل میں آتی ہے اور اس کام کے لیے اُن کے پاس اسمبلی کے تحلیل سے لے کر صرف تین دن کا وقت ہوتا ہے۔ ایک بار ان کے نام پر اتفاق ہو جائے تو صدرِ پاکستان اس نام کی منظوری دیتے ہیں اور جب تک نگران وزیرِ اعظم نہ آ جائے، لیکن اس وقت تک عمران ہی وزیرِ اعظم رہیں گے۔ اب چونکہ اپوزیشن جماعتوں کی طرح شہباز شریف بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کے انتظار میں ہیں لہذا عمران اور شہباز کے درمیان نگران وزیر اعظم کے نام پر اتفاق کا کوئی امکان نہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ پرابلم یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی تو تحلیل ہو چکی ہے، تو پھر یہ کمیٹی کیسے قائم ہو گی، اس میں کون لوگ شامل ہوں گے، اور یہ بھی اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو؟ آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کمیٹی قومی اسمبلی کے ارکان کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر سینیٹ کے ارکان پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔
لیکن جس مبینہ دھمکی آمیز خط کی بنیاد پر سپیکر نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دے کر مسترد کیا اس کا کوئی ثبوت سامنے نہیں آ سکا۔ دوسری جانب پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے سوال کیا ہے کہ کیا حکومت کی جانب سے 197 اراکین قومی اسمبلی کو غدار قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کیا کوئی بتائے گا کہ اس سازش کی تحقیقات کس ایجنسی نے کیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا فوجی ترجمان وضاحت کریں گے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو ایک غیر ملکی سازش کا حصہ قرار دیا گیا تھا، جیسا کہ عمران خان دعوی کر رہے ہیں؟

Related Articles

Back to top button