عمران نے معصوم نوجوانوں کو جنونی کیسے بنایا؟

سینئر سیاسی تجزیہ کار خورشید ندیم نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی سربراہ عمران خان نے پاکستان کے نوجوانوں کو ایک لمحے کے لیے سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی۔ وہ اقتدار میں تھے تب بھی انہیں ہیجان میں مبتلا رکھا تاکہ وہ کوئی سنجیدہ سوال نہ اٹھا سکیں۔ یہی وہ جنون ہے جس نے 9 مئی کو اس طرح ظہور کیا کہ کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہی۔ سیاسی اختلاف نفرت میں بدل گیا اور جمہوریت اور فسطائیت میں فرق باقی نہیں رہا۔
اپنے ایک کالم میں خورشید ندیم لکھتے ہیں کہ سیاسی مبادیات سے واقف ایک عامی بھی جانتا ہے کہ عمران خان اسی گملے میں اگائے گئے جس میں اہلِ سیاست کی ایک پوری نسل تیار ہوئی۔ مقتدرہ کے باغ میں ایک’ گوشہ سیاست‘ ہے۔ یہاں ایک نرسری ہے جہاں ’محکمہ زراعت‘ نئے تجربات کرتا ہے۔ نئے نئے گل بوٹے اگائے اور کھلائے جاتے ہیں۔ آخری بار مگر جو تجربہ ہوا، اس نے باغباں کو بھی ششدر کر دیا۔ اس بار جو بیج بویا گیا اس میں ایسے امکانات چھپے ہوئے تھے جو باغبان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔ باغبان پر جو گزری سوگزری، اس نئے تجربے نے وطنِ عزیز کی فضا میں جو زہر گھولا، وہ ایک الگ داستان ہے۔
یہ زہر پاکستان کی سیاست کو کب تک اور کیسے آلودہ رکھے گا، آج لازم ہے کہ اس کا تجزیہ کیا جائے۔ عمران خان صاحب نے معاشرے کو تقسیم کیا۔خود کو معیارِ حق بنا کر پیش کیا۔ پاکستانی معاشرہ اس سے پہلے کبھی اس نوعیت کی تقسیم کا شکار نہیں ہوا۔ یہاں مذہبی فرقے بھی تھے اور سیاسی جماعتیں بھی۔ عام آدمی اپنی تمام تر وابستگی کے باوصف کبھی اس زعم میں مبتلا نہیں ہوا کہ وہ یا اس کی جماعت اور فرقہ سر تا پا حق ہیں اور دوسری طرف سراسر باطل ہے۔ تقسیم کا زہر اب معاشرے کے رگ و پے میں اتر گیا ہے۔ اسے دوبارہ یک جا ہونے میں نہیں معلوم کتنا وقت چاہئے۔
خورشید ندیم اپنی تحریر میں کہتے ہیں کہ سیاست میں مذہب کا استعمال ہمارے لیے کوئی نئی روایت نہیں مگر عمران نے اس کو بھی ایک ایسی جگہ پہنچا دیا ہے جہاں مذہب اور معاشرہ دونوں خطرے میں ہیں . عمران خان نے رفتہ رفتہ ایک گروہ تشکیل دیا ۔ انہوں نے لوگوں کو یہ باور کرایا کہ وہ اس زمین پر حق کی تنہا آواز ہیں۔ ایسی وڈیوز کو پھیلایا گیا جن میں ان کی ذات کو ایک مذہبی تقدس دیا گیا۔ لوگ مذہبی لغت میں کلام کرتے ہوئے انہیں خدا کے ایک نمائندے کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اجتماعی سطح پر اس عمل کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ سیاست میں مذہب کو ایک کلٹ بنانا، عمران خان کا ایک اہم سیاسی ورثہ ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ نے نے نئی نسل میں ہیجان پیدا کیا۔ ان کے سامنے مسائل کو ضرورت سے زیادہ سادہ بناکر پیش کیا اور ان کی سادہ لوحی کا استعمال کیا۔ ہیجان کو سیاسی شعور کا نام دیا۔ عمران نے بالخصوص 2014کے بعد نوجوانوں کو ایک لمحے کے لیے سوچنے سمجھنے کی مہلت نہیں دی۔ وہ اقتدار میں تھے تب بھی انہیں ہیجان میں مبتلا رکھا تاکہ وہ کوئی سنجیدہ سوال نہ اٹھا سکیں۔ یہی وہ جنون ہے جس نے 9 مئی کو اس طرح ظہور کیا کہ کسی شے کی حرمت باقی نہیں رہی۔ سیاسی اختلاف نفرت میں بدل گیا اور جمہوریت اور فسطائیت میں فرق باقی نہیں رہا۔
خورشید ندیم لکھتے ہیں کہ عمران خان نے سیاست میں اسٹیبلیشمنٹ کے کم ہوتے کردار کو اس طرح بڑھا دیا کہ پاکستان سیاسی اعتبار سے ترقی معکوس کا شکار ہو گیا۔ پہلے مقتدرہ کے نیوٹرل ہونے کا مذاق اڑایا اور اس کی غیر جانب داری کو ہدفِ تنقید بنایا۔ فوج پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ اس کی سیاسی حلیف بنے اور اپنے آئینی کردار کو نظر انداز کرے جو اس کو غیر جانب دار بناتی ہے۔ جب عسکری قیادت نے اپنی غیر جانب داری پر اصرار کیا تو اس کو اپنا حریف بنا لیا اور ایک قومی ادارے پر اپنے قتل کی سازش کا الزام دھر دیا۔ یوں فوج کو مجبور کیا کہ وہ سیاسی جماعت بن کر ان کے سامنے کھڑی ہو جائے۔ عمران خان کبھی اہلِ سیاست کے ساتھ ہم کلام ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔ انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ وہ آرمی چیف سے بات کرنا چاہتے ہیں۔انہوں نے بار بار فوج کو سیاست میں گھسیٹا۔ آج اگر مقتدرہ ہمیں سیاسی طور پر زیادہ متحرک دکھائی دیتی ہے یا آئندہ دنوں میں اس کے سیاسی کردار میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی تمام تر ذمہ داری عمران پر ہے۔آخر میں خورشید ندیم کہتے ہیں کہ عمران خان کی سیاست کا تکمیلی باب رقم ہو رہا ہے۔ان کے ہاتھوں میں ہم نے بہت کچھ گنوایا۔ لیکن اگر ہمیں اس کا ادراک ہو جائے کہ ہم کیا گنوا بیٹھے ہیں تو اسے ایک نیک شگون قراردیا جا سکتا ہے