نواز شریف نے عمران خان سے مذاکرات کی تجویز مسترد کر دی

نواز شریف نے پی ٹی آئی چئیرمین عمران خان کی طرف سے مذاکرات کی آفر کو مسترد کر دیا ہے۔ نون لیگ کے قائد نواز شریف فی الحال عمران خان سے بات چیت کرنے کی بجائے انھیں گرفتاری کر کے قانون کے تابع کرنے اور احتساب کرنے کے حق میں ہیں۔ جبکہ پارٹی رہنماؤں کی اکثریت اس معاملے میں ان کی ہمنوا ہے تاہم پارٹی کے بعض معتدل مزاج رہنماؤں کا خیال ہے کہ سیاسی تناؤ کم کرنے کے لیے بات چیت کا دروازہ کھولنا ضروری ہے۔واضح رہے کہ چند روز پہلے سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے اپوزیشن کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی۔ جبکہ وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔

بعد ازاں عمران خان نے ٹویٹ کی کہ ’’پاکستان کی ترقی، مفادات اور جمہوریت کیلیے میں کسی قربانی سے گریز نہیں کروں گا، اس ضمن میں، میں کسی سے بھی بات کرنے کیلئے تیار ہوں اور اس جانب میں ہر قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں۔‘‘ ان دوطرفہ بالواسطہ پیغامات سے لگ رہا تھا کہ جیسے حکومت اور اپوزیشن آخرکار مذاکرات کے ذریعے موجودہ سیاسی کشیدگی کم کرنے کی طرف جارہی ہیں۔

بعض ذرائع کا دعوی تھا کہ پس پردہ ہونے والی کوششوں نے دونوں فریقوں کو بات چیت کی ٹیبل پر آنے کے لئے تیار کیا۔ تاہم مریم نواز کی جانب سے عمران خان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی کھلی مخالفت نے اس منظرنامے کو دھندلا دیا۔ اب لندن سے اطلاع آئی ہے کہ نواز شریف بھی چیئرمین پی ٹی آئی سے کسی قسم کی بات چیت کے حق میں نہیں۔

لندن میں موجود شریف خاندان سے قریبی ذرائع کے مطابق نواز شریف سمجھتے ہیں کہ اس موقع پر عمران خان سے بات چیت کرنا انہیں این آر او دینے کے مترادف ہو گا۔ کیونکہ اس کے نتیجے میں درجنوں مقدمات کا سامنا کرنے والے عمران خان پر ہاتھ ہلکا رکھنا پڑے گا اور وہ ممکنہ گرفتاری سے بچ نکلیں گے، جو آج نہیں تو کل ہونی ہے اور اس کا فیصلہ حکومت کر بیٹھی ہے۔

ذرائع کے بقول نواز شریف اس وقت عمران خان سے بات چیت کے بجائے ان کی گرفتاری میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور یہ کہ مریم نواز بھی اپنے والد کے موقف کی حامی ہیں۔ لندن میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان سے بات چیت کے بجائے ان کی پارٹی سے دہشت گرد جماعتوں کی طرح نمٹنے کا بیان بھی مریم نواز کی اپنی سوچ نہیں، بلکہ وہ نواز شریف کے خیالات کو آگے بڑھارہی ہیں۔ مریم نواز کی پر یس کانفرنس اور جلسوں کی تقریر سے لے کر ان کے ہر بیان کے پیچھے نواز شریف کی مشاورت ہوتی ہے۔

ادھر لاہور میں موجود نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان یا پی ٹی آئی سے بات چیت نہ کرنے کے معاملے پر نون لیگ کے رہنماؤں کی اکثریت کا اتفاق ہے۔ تاہم پارٹی کے صدر اور وزیراعظم شہباز شریف سمجھتے ہیں کہ عمران خان سے بات چیت کے بغیر ملک میں سیاسی استحکام لانا مشکل ہے اوراس کے نتیجے میں نا صرف انہیں گورننس میں مشکلات درپیش رہیں گی۔ بلکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی بھی کھٹائی میں پڑی رہے گی۔لہٰذا وہ عمران خان سے بات چیت کا کڑوا گھونٹ بھرنے پر آمادہ ہیں۔ اس معاملے میں وفاقی وزیر قانون اعظم تارڑ، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، طارق فضل چوہدری اور نون لیگ کے بعض دیگر معتدل مزاج رہنما پارٹی صدر شہباز شریف کے ہمنوا ہیں۔ تاہم پرویز رشید، رانا ثنا اللہ، خواجہ آصف، میاں جاوید لطیف، طلال چوہدری، عابد شیر علی، خرم دستگیر، برجیس طاہر اور دیگر کئی رہنما نواز شریف اور مریم نواز کے مؤقف کے تائید کنندہ ہیں۔

ذرائع کے مطابق احسن اقبال کا معاملہ کچھ ادھر اور کچھ ادھر والا ہے۔ احسن اقبال پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے کھل کر بات نہیں کرتے کہ ان کے خیال میں عمران خان کو ٹیبل پر لانے سے متعلق شہباز شریف کی پیشکش بہتر ہے یا ان سے کسی قسم کی بات چیت نہ کرنے کا نواز شریف اور مریم نواز کا موقف درست ہے۔ نون لیگی ذرائع کے بقول اس اسٹیج پر جبکہ عمران خان کے حواس پر گرفتاری کا خوف غالب ہے، ایسے میں مذاکرات شروع کیے جانے پر عمران خان کو اس خوف سے نجات مل جائے گی۔اس کے نتیجے میں وہ بھرپور طریقے سے انتخابی مہم پر فوکس کر سکیں گے اور پھر یہ کہ بات چیت کا دروازہ کھولنے کی صورت میں انتخابات سے کچھ پہلے چیئرمین پی ٹی آئی کو گرفتار کرکے دو سے تین ماہ تک جیل میں رکھنے کا مجوزہ حکومتی پلان بھی دھرا رہ جائے گا۔

نون لیگی ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف سے قریب پارٹی کے بعض رہنما اس سلسلے میں نواز شریف کو لچک دکھانے پرآمادہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ ان رہنماؤں کا خیال ہے کہ جس طرح سابق آرمی چیف کی مدت میں توسیع اور عمران خان کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد فوری الیکشن میں نہ جانے کے معاملے پر نواز شریف کو منا لیا گیا تھا، عمران خان سے بات چیت پر بھی انہیں آمادہ کر لیا جائے گا۔ لیکن اس معاملے پر نواز شریف کی جانب سے لچک دکھانے کے حوالے سے فی الحال قطیعت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

مبصرین اور تجزیہ کاروں کی رائے ہے کہ ملک میں سیاسی بحران کے پیشِ نظر تمام سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات ناگزیر ہیں اور یہ وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے نگران حکومت، اصلاحات اور انتخابات کے حوالے سے اتفاق پیدا ہوسکتا ہے تاہم اس کے امکانات تاحال واضح نہیں۔ملکی سیاسی صورتحال بارے تجزیہ کار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ تیسری قوت سیاسی فریقین کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کے لیے تیار نہیں تاہم یہ الیکشن اور معیشت پر بات چیت واحد راستہ ہے ’ورنہ افراتفری اور بحران جاری رہیں گے۔‘وہ کہتے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ’الیکشن کی تاریخ آچکی ہے لیکن اس میں متفقہ طور پر تاخیر ہوسکتی ہے اگر پورے ملک میں عام انتخابات کی طرف بڑھنا ہے۔‘ان کی رائے میں تحریک انصاف بظاہر مذاکرات کے لیے تیار ہے اور حکومت کو بھی اس پر سنجیدگی دکھانی چاہیے۔’مذاکرات اس لیے ناگزیر ہیں کیونکہ دونوں کے لیے آگے راستہ بند ہے۔ الیکشن میں اسی طرح گئے تو ن لیگ کے لیے آگے ہار ہے اور پی ٹی آئی کو اقتدار نظر نہیں آ رہا۔‘

اس سوال پر کیا ان مذاکرات میں کیا طے ہوسکتا ہے، تو انھوں نے بتایا کہ اس وقت اصل تنازع انتخابات کا ہی ہے کہ یہ ’کب ہوں گے، کیسے کرائے جائیں گے اور کون سے ادارے حصہ لیں گے۔ یہ ساری چیزیں اور نگران سیٹ اپ طے ہونا چاہیے جیسا کہ آئین میں لکھا ہے۔‘تو کیا یہ مذاکرات ممکن ہیں، اس پر سہیل وڑائچ نے رائے دی کہ بات چیت کے لیے تحریک انصاف کو ’اسمبلی میں واپس جانا چاہیے جہاں آسانی سے معاملات طے ہوسکتے ہیں۔ اب بھی وقت ہے۔ اگر دونوں فریقین رضامند ہوجائیں تو یہ مذاکرات آج ہی ممکن ہیں۔‘اسی بارے میں صحافی عاصمہ شیرازی نے حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے امکان کو رد کیا ہے۔

عاصمہ شیرازی نے کہا کہ عمران خان ’کیرٹ اینڈ سٹک‘ یعنی گاجر اور چھڑی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ ’ایک جانب تو وہ دھمکی دیتے ہیں، آرمی چیف کا نام لیتے ہیں اوردوسری جانب مذاکرات کی بات کرتے ہیں۔ جب انھیں لگتا ہے کہ ان کے گرد دائرہ تنگ ہو رہا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بات چیت کرنی چاہیے۔ جیسے انھوں نے اسلام آباد سیشن کورٹ کے فیصلے کے بعد ٹویٹ کی کہ وہ ہر کسی سے بات کرنے کو تیار ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ بظاہر عمران خان اب بیچ کی کوئی راہ نکالنا چاہتے ہیں مگر ان کی پالیسی یہ رہی ہے کہ وہ ایک طرف چھڑی دکھاتے ہیں تو دوسری طرف گاجر۔ ’ماضی میں بھی وہ ایسا کئی بار کر چکے ہیں اور اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقع پر بھی انھوں نے ایسا ہی کیا۔‘عاصمہ شیرازی نے وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا نہیں کہ عمران خان کے ساتھ بات چیت ہو گی۔وہ کہتی ہیں کہ ’شہباز شریف نے ایک طرف گرفتاری کا عندیہ دیا اور دوسری جانب یہ کہا کہ ہم بات چیت کو تیار ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے مائنس عمران بات کرنے کو تیار ہوں گے۔‘

عاصمہ شیرازی نے آصف علی زرداری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انھوں نے کہا کہ ہم عمران خان کو سیاست دان نہیں سمجھتے اور ہم ان سے بات نہیں کریں گے۔ مریم نواز بھی یہی بات کر رہی ہیں، نواز شریف بھی یہی بات کر رہے ہیں۔ شہباز شریف اور ان کی کابینہ کا بھی کم و بیش یہی خیال ہے کہ عمران خان سے بات نہیں ہو سکتی۔‘عاصمہ شیرازی کے مطابق ’جہاں تک عمران خان کی بات ہے تو وہ بھی لگتا ہے کہ اپنے سپورٹرز کو مایوسی سے بچانے اور اپنے ووٹ بینک کو بچانے کے لیے ایسا کہہ رہے ہیں کیونکہ ان کا بیانیہ ہے کہ چوروں اور ڈاکوؤں سے بات نہیں ہو سکتی۔‘’میرے خیال میں عمران خان خود اس بات چیت میں شامل نہیں ہوں گے بلکہ اپنی پارٹی کی دیگر قیادت کو آگے کر دیں گے، جو بات کر سکتے ہیں۔‘

عاصمہ شیرازی نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ مریم نواز بار بار ترازو کے توازن کو برابر کرنے کی بات کرتی ہیں جس سے ’یہی مطلب نکالا جا سکتا ہے وہ کہتی ہیں کہ جس طرح نواز شریف کو گیم سے آؤٹ کیا گیا ویسے ہی عمران خان کو بھی آؤٹ کیا جائے۔‘’نہ صرف آوٹ کیا جائے بلکہ نون لیگ اور پی ڈی ایم کے نزدیک عمران خان کے خلاف کیسز، جیسے توشہ خانہ کیس میں سزا نہیں ہوتی اور جب تک حکومت یا پی ڈی ایم کو نہیں لگتا کہ ادارے نیوٹرل ہیں تو اس بات پر بحران بڑھ سکتا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ بحران فوری طور پر کسی حل کی طرف جائے گا۔‘

اسٹیبلشمنٹ کی ہومیو پیتھی پالیسی عمران کے سامنےکیوں نہ چلی؟

Related Articles

Back to top button