سپیکر کی حکم عدولی پر سپریم کورٹ کیا کر سکتی ہے؟

سپریم کورٹ کی جانب سے 9 اپریل کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے بعد نیا وزیر اعظم منتخب کروانے کے واضح احکامات کی حکم عدولی کے بعد سپکر قومی اسمبلی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کا امکان پیدا ہوگیا ہے۔ دوسری جانب یہ اطلاعات ہیں کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے تا کہ اپنے خلاف ووٹنگ کو مزید لٹکایا جا سکے۔ تہم آئینی ماہرین کے مطابق پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ چونکہ متفقہ ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں،اس لیے اگر اس کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل کی جاتی ہے تو وہ بھی مسترد ہو جائے گی۔

دوسری جانب سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کا عمل لٹکائے چلے جا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں عدالت عظمٰی کے پانچ ججوں نے 13 پیراگرافس پر مبنی مختصر فیصلہ دیا تھا جس کا بنیادی مقصد 9 اپریل کو ہر صورت میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کروانا اور نئے وزیر اعظم کا انتخاب کروانا تھا۔ سپیکر اسد قیصر کی جانب سے ووٹنگ کو لٹکانے پر اپوزیشن توہین عدالت کے الزام پر کارروائی کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع بھی کر سکتی ہے جسکے نتیجے میں اسد قیصر کے خلاف سخت کارروائی بھی ہوسکتی ہے۔

آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ سپیکر کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود سگر عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ نہ کروائی گئی تو اس بات کا بھی امکان ہے کہ عدالت عظمی ووٹنگ کروانے کے لیے کوئی مانیٹرنگ جج مقرر کر دے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کیا کہا گیا تھا اور سپیکر اسد قیصر کن احکامات کی حکم عدولی پر رہے ہیں؟

عدالتی فیصلے کے پیراگراف نمبر 1 میں سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ غیر آئینی قرار دی تھی۔ عدالتی فیصلے کے پیرا نمبر 2 میں تحریک عدم اعتماد کو زیر التواء قرار دیا گیا تھا۔ پیرا نمبر 3 میں لکھا گیا کہ جب تحریک عدم اعتماد زیر التواء ہو تو وزیر اعظم کسی بھی صورت صدر کو اسمبلی توڑنے کا مشورہ نہیں دے سکتا۔ پیرا نمبر 4 میں لکھا گیا کہ صدر کا 3 اپریل کو اسمبلی توڑنے کا آرڈر منسوخ کیا جاتا ہے۔
پیرا نمبر 5 میں لکھا گیا کہ چونکہ صدر نے اسمبلی غلط مشورے پر توڑی اور وہ حکم منسوخ ہو چکا، لہذا قومی اسمبلی اپنی پہلی حالت میں موجود ہے ۔

عدالتی حکم کے پیرا نمبر 6 میں لکھا ہے کہ صدر کی طرف سے نگران حکومت اور عام انتخابات کے لیے اٹھائے گئے تمام اقدامات کالعدم کیے جاتے ہیں۔ فیصلے کے پیرا نمبر 7 میں لکھا ہے کہ وزیراعظم انکی حکومت اور تمام وزراء کو انکے عہدے پہ 3 اپریل کی پوزیشن پر بحال کیا جاتا ہے۔پیرا نمبر 8 میں لکھا ہے کہ سپیکر کی طرف سے تحریک عدم اعتماد پر کاروائی کے لیے اسمبلی کے بلائے گئے اجلاس کی منسوخی یا ملتوی کرنے کے احکامات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے اور ایسے احکامات منسوخ کیے جاتے ہیں۔

عدالتی حکم کے پیرا نمبر 9 میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتہ کو صبح ساڑھے دس بجے سے سے قبل بلا کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی جائے۔ پیرا نمبر 10 میں لکھا ہے کہ سپیکر آئین کے تحت اس وقت تک اجلاس ملتوی نہیں کر سکتے جب تک تحریک عدم اعتماد یا تو ناکام ہو جائے یا پھر کامیاب ہو جائے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو جائے تو نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد ہی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کیا جا سکتا ہے۔

عدالتی فیصلے کے پیرا نمبر 11 میں لکھا ہے کہ وفاقی حکومت تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لیے تمام ممبران کو سہولت فراہم کرے گی اور کوئی ایسا عمل نہیں کرے گی جس سے کسی کو ووٹ ڈالنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو۔

سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کا انجام اچھا نہیں‌ ہوگا

فیصلے کے پیرا نمبر 12 میں لکھا ہے کہ اراکین پارلیمنٹ کی نا اہلی سے متعلق آرٹیکل 63-A کے حوالے سے کوئی آرڈر نہیں ہے اور جو بھی اس ضمن میں آئے گا اسکی نااہلی کا معاملہ قانون کے مطابق دیکھا جائے گا، چاہے وہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ میں حصہ لے یا وزیر اعظم کے انتخاب میں ووٹنگ میں حصہ لے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی جانب سے سنائے گئے عدالتی فیصلے کے پیرا نمبر 13 میں لکھا گیا کہ یہ حکم دراصل اس حکم کا تسلسل ہے جسکے تحت 3 اپریل کو قومی اسمبلی توڑے جانے کے بعد صدر اور وزیر اعظم کے احکامات کو اس ازخود نوٹس کے فیصلے کے تابع کیا گیا تھا۔

What can the SC do on violation of Speaker’s order? | video

Related Articles

Back to top button