عمران خان کی جنونیت انہیں کہاں پہنچانے والی ہے؟

عمران خان نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد سے جنونیت پر مبنی جو جارحانہ حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے وہ ان کے جنونی مداحین کے لیے یقیناً مسحور کن ہے مگر انہیں سمجھنا ہوگا کہ یہ جنونی حکمت عملی انہیں ایک بند گلی میں لے جا رہی ہے جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچے گا۔

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید ان خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عمران خان کو یاد دلاتے ہیں کہ نواز شریف حکومت کے خلاف دھرنے اور مظاہرے 2014 میں بھی تحریک انصاف کے کام نہیں آئے تھے اور انہیں پانامہ پیپرز کے منکشف ہونے کا انتظار کرنا پڑا تھا۔ دوسری جانب یاد رہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف کے خلاف دائر کردہ فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ بھی آنے والا ہے اور اور پنااما پیپرز کا ایکشن ری پلے بھی ہو سکتا ہے۔

نصرت کہتے ہیں کہ جب پانامہ پیپرز سکینڈل ایک دھماکے سے منظر عام پر آیا تھا تو ریاستی ادارے بھی میاں صاحب کے خلاف متحرک ہو گئے اور انہیں سپریم کورٹ کے ہاتھوں عمر بھر کے لئے کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نا اہل کروانا پڑا۔ اس نا اہلی کے باوجود 2013 ء میں قائم ہونے والی قومی اسمبلی نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی۔ اس کے بعد بھی جو جھرلو الیکشن ہوئے وہ بھی عمران کی جماعت کو سادہ اکثریت فراہم نہ کر پائے۔ اسی وجہ سے ”آزاد“ حیثیت میں کامیاب ہونے والے اراکین قومی اسمبلی کو جہانگیر ترین کے طیارے میں لاد لاد کر بنی گالہ پہنچانا پڑا، لیکن حکومت سازی کے لئے ان کی تعداد بھی کافی نہیں تھی لہذا اتحادی جماعتوں سے رجوع کرنا پڑا۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ عمران اور ان کے مداحین یقیناً 2014 میں واپس لوٹنا چاہ رہے ہیں۔ اسی لیے اپنے جلسوں اور دھرنوں کو مزید جارحانہ بنانے کے لئے قومی اسمبلی سے استعفے دے دیے گے ہیں۔ تحریک انصاف کی ٹکٹ پر جولائی 2018 کے انتخاب میں قومی اسمبلی پہنچنے والوں کی اکثریت مگر اس کے لئے دل سے تیار نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عمران امریکہ اور ”امپورٹڈ“ حکومت کے خلاف شہر شہر جا کر اپنی مہم جاری رکھیں لیکن استعفوں کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے۔ لیکن عمران کی ہدایت پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے 123 پہ ٹی آئی اراکین کے استعفے منظور کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

اس سے پہلے عمران خان پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے پارلیمان ہاؤس تشریف لائے تو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے اراکین کی اکثریت نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ فی الفور قومی اسمبلی سے مستعفی ہونا کوئی فائدہ مند حکمت عملی ثابت نہیں ہو گا۔ اس حوالے سے ریاض فتیانہ کے دلائل کافی اہمیت کے حامل تھے۔

وہ فریاد کرتے رہے کہ تحریک انصاف اگر با جماعت استعفوں کے بعد قومی اسمبلی میں موجود نہ رہی تو حکومت یقیناً 100 نشستوں پر ضمنی انتخاب کروانے کے بجائے عام انتخابات کو ترجیح دے گی اور اگر ایسا ہوا تو سراسر نقصان پی ٹی آئی کا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں نئی حکومت عجلت میں ”انتخابی اصلاحات“ والے قوانین بھی منظور کروالے گی اور تحریک انصاف کا ان قوانین کی تیاری میں کوئی حصہ نہیں ہو گا۔ اس کے علاوہ نئے انتخاب کی نگہبانی کے لئے عبوری حکومت کی تشکیل میں بھی انکی جماعت کی رائے نہیں مانگی جائے گی۔

نصرت جاوید کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے حامیوں کی اکثریت فی الوقت بہت جذباتی ہے۔ وہ استعفے نہ دینے والے ریاض فتیانہ جیسے اراکین اسمبلی کی سوچ کو ”بزدلانہ اور موقعہ پرست“ ٹھہرائے گی۔ لیکن عمران کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر ایک بار پھر بٹھانے کے لئے یہ لازمی ہے کہ آئندہ ا نتخاب میں عوام کی بے پناہ اکثریت تحریک انصاف کے ٹکٹ پر میدان میں اترے اور اس کے امیدواروں کی حمایت میں آنکھیں بند کرتے ہوئے مہریں لگائے۔

سابق وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے دن سے تحریک انصاف نے جو حکمت عملی اپنائی ہے اس نے یقیناً اس جماعت کے دیرینہ حامیوں کو متحرک کر دیا ہے۔ لیکن نواز شریف نے 1990 ء کی دہائی سے جو ووٹ بینک تشکیل دیا ہے اسے تحریک انصاف کی جارحانہ حکمت عملی رتی بھر نقصان نہیں پہنچا پائی ہے۔

بقول نصرت جاوید، حقیقت یہ ہے کہ 2011 سے پاکستانی معاشرہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہو چکا ہے۔ دونوں فریقین اور ان کے حامی اپنے اپنے موقف پر ڈٹ کے کھڑے ہیں۔ لیخن سچ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر حاوی ہیجان انتخابی مقابلوں پر قطعی انداز میں اثرانداز نہیں ہوتا۔ ڈیرے اور دھڑے والے سیاست دان برادری اور دیگر بنیادوں پر کئی نسلوں سے چھائے ہوئے ہیں۔ تعلیم کے فروغ اور میڈیا کی بدولت ان کے اثر میں بتدریج کمی یقیناً آ رہی ہے۔

جب تک ہماری سیاسی جماعتیں مقامی اور ضلعی سطحوں پر منظم نہیں ہوں گی ”الیکٹ ایبلز“ کی طاقت برقرار رہے گی۔ ان کی اکثریت انتخاب کے قریب ”ہوا کا رخ“ دیکھتی ہے۔ ”جہیڑا جتے، اوہدے نال“ والا رویہ اختیار کرتے ہوئے اس جماعت سے ٹکٹ کی طلب گار بن جاتی ہے جو اقتدار میں آتی نظر آئے۔ اس ضمن میں ”عوامی لہر“ فقط 1970 ء کے انتخاب کے دوران ہی نظر آئی تھی لیکن اس الیکشن کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہونے کی راہ پر چل نکلا۔ سقوط ڈھاکہ نے ہمارے ریاستی اداروں کو مجبور کیا کہ آئندہ سے ”انتخابی نتائج“ انہیں ہرگز پریشان نہ کریں۔

 

اسی باعث 1988 میں راتوں رات محترمہ بے نظیر بھٹو کو اکثریت سے محروم رکھنے کے لئے ”اسلامی جمہوری اتحاد“ بنوا دیا گیا تھا۔ اس اتحاد نے پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب بڑے صوبے یعنی پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے نہیں دی۔ بھٹو کی پارٹی آج بھی اس صوبے میں اپنی قوت بحال نہیں کر پائی ہے۔ 1997 کے بعد سے یہ سوچ بھی ریاستی اداروں میں پائی جاتی ہے کہ کسی بھی جماعت کوانتخاب کے دوران دو تہائی اکثریت حاصل کرلینا اسے بے قابو بنا کر من مانی کو اکساتا ہے۔ 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ اسی وجہ سے ہوا جس کے بعد ہمیں 2002 ء تک انتخاب کا انتظار کرنا پڑا تھا۔

عمران خان کو روکا نہ گیا تو پاکستان تقسیم ہو جائے گا

لہذا نصرت جاوید مشورہ دیتے ہیں کہ تحریک انصاف کے لئے بہتر یہی ہو گا کہ وہ اپنے حامیوں کے جذبات کو ان کی محدودات سمیت سمجھنے کی کوشش کرے۔ نام نہاد ”سسٹم“ میں رہتے ہوئے ہی اقتدار میں بحالی کی حکمت عملی تیار کرے وگرنہ اپریل 1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کے جلسے بھی ”تاریخی“ اور پرجوش تھے لیکن نتیجہ وہی سامنے آیا جو کہ اسٹیبلشمنٹ چاہتی تھی۔

Where is Imran Khan’s fanaticism going to take him? video

Related Articles

Back to top button