عمران کی رہائی کی 90روزہ ڈیڈ لائن گنڈاپورکوکھاگئی

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کی جانب سے 12 جولائی کو عمران خان کی جیل سے رہائی کے لیے دی گئی 90 روز کی ڈیڈ لائن ختم ہونے کے بعد اب یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا موصوف اپنا مشن  ناکام ہونے پر اپنے اعلان کے مطابق وزارت اور سیاست چھوڑیں یا نہیں؟

یاد رہے کہ گنڈاپور نے لاہور میں پارٹی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی رہائی کے لیے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’میں 90 دن میں عمران خان کو جیل سے باہر نکلواؤں گا ورنہ وزارت اعلی اور سیاست دونوں چھوڑ دوں گا’۔ اب جبکہ یہ ڈیڈلائن ختم ہو رہی ہے تو یہ سوال اٹھنے لگا ہے کہ کیا علی امین گنڈاپور ایسا کریں گے؟ بظاہر ایسا نظر نہیں آتا۔

خیال رہے کہ 12 جولائی کو پی ٹی آئی قیادت کا اسلام آباد میں ایک معمول کا اجلاس جاری تھا جس کے بعد علی امین گنڈاپور نے اچانک ایک احتجاجی ریلی نکالی اور قائدین و کارکنان کو لے کر اسی روز لاہور پہنچ گئے۔ وہاں ایک جذباتی خطاب میں گنڈاپور نے عمران کی رہائی کے لیے 90 روزہ تحریک چلانے کا اعلان کیا جو بیرسٹر گوہر خاں سمیت دیگر قیادت کے لیے ایک سرپرائز تھا۔ پارٹی رہنماؤں کے مطابق، عمران خان نے تب اپنی رہائی کے لیے صرف احتجاج کرنے کی ہدایت کی تھی، انہوں نے 90 روزہ تحریک چلانے کی کوئی ہدایت نہیں دی تھی۔

لیکن علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر کے دوران شعبدہ بازی کرتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں یہ اعلان بھی کر دیا کہ ’اگلے 90 روز میں یا تو وہ عمران خان کو جیل سے رہا کروائیں گے یا پھر وزارت اور سیاست دونوں ہی چھوڑ دیں گے۔  اب جب یہ ڈیڈ لائن پوری ہو رہی ہے تو پارٹی کے کارکنان انہیں سوشل میڈیا پر ان کا وعدہ یاد دلا رہے ہیں۔ یاد رہے کہ گنڈاپور کے بار بار کے اعلانات کے باوجود عمران خان کے بدستور قید میں ہونے پر کارکنان میں بے چینی پائی جاتی ہے۔

اسی لیے 28 ستمبر کو پشاور کے جلسے میں پارٹی کارکنان کھل کر علی امین گنڈا پور کے خلاف سامنے آ گئے۔ جب علی امیں گنڈاپور تقریر کرنے کے لیے ڈائس پر آئے تو پارٹی کارکنان نے نہ صرف ان پر جوتے پھینکے بلکہ انہیں گالیاں بھی دیں۔ ان پر فوج کا ٹاؤٹ اور ڈبل ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی لگائے گئے جس کے رد عمل میں گنڈاپور نے نہ صرف اپنی صوبائی کابینہ کے دو وزرا کو برطرف کر دیا بلکہ علیمہ خان کو بھی ملٹری انٹیلیجنس کا ایجنٹ قرار دے دیا۔

سیاسی مبصرین کے مطابق علی امین گنڈاپور اس وقت وکٹ کے دونوں طرف کھیل رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ علی امین کے خلاف روز بروز ایک نیا محاذ کھل رہا ہے اور ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ انکے مطابق حکومت چلانے کے لیے فوج کے ساتھ چلنا ان کی مجبوری ہے جبکہ پارٹی ورکرز ایسا نہیں چاہتے۔ گنڈا پور کے لیے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عمران انہیں مسلسل مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کی کوشش جاری رکھیں جبکہ میڈیا کے سامنے عمران خان کا موقف اسٹیبلشمنٹ مخالف ہوتا ہے۔

اب جبکہ عمران خان کی رہائی کی ڈیڈ لائن گزر گئی ہے تو پارٹی کارکنان ایک مرتبہ پھر گنڈاپور پر گرم ہو چکے ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق سب جانتے ہیں کہ علی امین گنڈاپور استعفیٰ نہیں دیں گے کیونکہ عمران کے بعد پارٹی میں سب سے طاقتور شخصیت وہی ہیں،  ویسے بھی بانی پی ٹی آئی یہ نہیں چاہیں گے کہ گنڈاپور کہ استعفے کے بعد ان کی خیبر پختون خواہ حکومت بھی ختم ہو جائے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مشکل ترین صورت حال میں پھنسے ہوئے گنڈاپور اب بھی اچھی سیاست کر رہے ہیں اور حکومت و پارٹی دونوں کو ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تاہم سوشل میڈیا پر پارٹی کارکنان گنڈاپور سے سوال کر رہے ہیں کہ انہوں نے عمران کی رہائی کے لیے 90 روزہ تحریک کے دوران کتنے جلسے کئے تھے۔

یاد رہے کہ عمران کی رہائی کے لیے شروع ہونے والی 90 روزہ تحریک کے تحت پہلا ملک گیر احتجاج 5 اگست کو ہوا تھا۔

علی امین گنڈاپور نے 5 اگست کو پشاور رنگ روڈ سے قلعہ بالا حصار تک ریلی نکالی جبکہ 87 ستمبر کو پشاور میں ایک جلسہ منعقد کیا۔ یعنی ان 90 دنوں کے دوران کپتان کی رہائی کے لیے گنڈا پور نے صرف دو جلسے کیے جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ اس حوالے سے کتنے سنجیدہ تھے۔ تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ’احتجاج اور جلسوں سے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ تو ڈالا جا سکتا ہے لیکن 9 مئی 2023 کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے مرکزی ملزم کو رہا کروانا ممکن نہیں۔ ان کے مطابق عمران خان کا اصل مسئلہ فوج کے ساتھ ہے لہذا انہیں سمجھنا ہوگا کہ محاذ آرائی سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔

جیل میں قید عمران خان گندی گالیوں اور اشاروں پر کیوں اتر آئے؟

تاہم گنڈا پور کے لایعنی اعلان کی وجہ سے پارٹی میں ان کے خلاف ایک محاذ کھل گیا ہے۔ ایسے میں دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ اپنی وزارت اعلی برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں۔

Back to top button