جیل میں قید عمران خان گندی گالیوں اور اشاروں پر کیوں اتر آئے؟

 

 

 

عمران خان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ ہونے والی فوج مخالف ٹویٹس کی تفتیش کے دوران بانی پی ٹی آئی نے ایف آئی اے کی تحقیقاتی ٹیم کو بتایا ہے کہ ان کا اکاؤنٹ جبران الیاس نامی ایک محب وطن شہری چلاتا ہے، تاہم ایف آئی اے نے پتہ چلایا ہے کہ جبران الیاس برطانوی شہری ہے جو بیرون ملک سے عمران خان کے ریاست مخالف سوشل میڈیا اکاؤنٹس آپریٹ کرتا ہے۔ باخبر ذرائع دعوی کیا ہے کہ جب عمران کو بتایا گیا کہ جس شخص کو وہ محب وطن شہری قرار دیتے ہیں وہ تو ایک برطانوی شہری ہے تو بانی پی ٹی آئی نے غصے میں آ کر نہ صرف ایف آئی اے کے ٹیم کو گندی گالیاں نیم بلکہ نہایت نازیبہ اشارے بھی کیے۔ بتایا جاتا ہے کہ گھٹیا پن کا مظاہرہ عمران خان کا عمومی رویہ بن چکا ہے اور وہ تفتیشی ٹیم کے علاوہ جیل عملے اور صحافیوں سے بھی اکثر اخلاق سے گری ہوئی گالی گلوچ کرتے ہیں۔

 

یاد رہے کہ نیشنل سائبر کرائم ایجنسی نے عمران کے آفیشل X اکاؤنٹ سے ریاست اور فوجی قیادت کے خلاف جاری سوشل میڈیا مہم کی تحقیقات کے لئے ایف آئی اے کے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کی تین رکنی ٹیم تشکیل دی تھی۔ سینیئر صحافی شکیل انجم روزنامہ جنگ میں بتاتے ہیں کہ جب یہ تفتیشی ٹیم اڈیالہ جیل میں عمران خان سے تحقیقات کرنے پہنچی تو اسے گندی گالیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ عمران خان نے تعاون کرنے سے انکار کر دیا اور بہانہ کیا کہ وہ اپنے وکلا کے بغیر کوئی بات نہیں کریں گے۔

 

شکیل انجم نے یاد دلایا کہ اس سے پہلے عمران خان عدالتی احکامات کے باوجود کئی مرتبہ جھوٹ پکڑنے والا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے سے بھی انکار کر چکے ہیں۔ یاد رہے کہ ایف آئی اے نے عدالت کے حکم پر عمران خان کے جھوٹے پکڑنے کے لیے ان کا پولی گرافک ٹیسٹ کرانے کا حکم دیا تھا۔ تاہم ایف آئی اے سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم نے عمران کے توہین آمیز رویے اور گالیوں کے باوجود اپنا کام جاری رکھا۔ اس ٹیم نے ایک ماہ کےدوران عمران خان سے اڈیالہ جیل میں چار ملاقاتیں کیں، آخری ملاقات 26 ستمبر 2025 کو ہوئی لیکن عمران نے گالیاں دینے اور گندے اشارے کرنے کے علاوہ کوئی بات نہیں کی۔

 

چنانچہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی  کو عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے کی جانے والی پوسٹس کی تحقیقات میں مشکلات کا سامنا ہے اور چھ ہفتوں سے جاری انکوائری سست روی کا شکار ہے۔ایجنسی کی جانب سے تشکیل دی گئی تین رکنی تحقیقاتی ٹیم کی سربراہی ڈپٹی ڈائریکٹر آیاز خان کر رہے ہیں، جو پچھلے ڈیڑھ ماہ سے ان پوسٹس کے اصل ماخذ اور نوعیت کا تعین کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم، اب تک ہونے والی چار ملاقاتوں میں سے کوئی بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی۔

 

تحقیقاتی ٹیم کے مطابق 26 ستمبر کو عمران سے ہونے والی چوتھی ملاقات بھی بے سود رہی۔ ٹیم کے ارکان کا کہنا ہے کہ عمران ہر ملاقات میں بد زبانی کرتے ہیں اور غلط، غیر متعلقہ یا گمراہ کن معلومات دیتے رہے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ تفتیشی ٹیم سے ہر ملاقات کے بعد خان جھوٹ پر مبنی ایک اور ٹوئیٹ داغ دیتے ہیں۔ تفتیشی ٹیم کے سربرا ایاز خان کا کہنا ہے کہ وہ تمام سوالات جو بعد میں عمران خان کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ ہوتے ہیں وہ سراسر جھوٹ پر مبنی ہوتے ہیں اور تحقیقات کے دوران پوچھے ہی نہیں جاتے۔

 

ذرائع کے مطابق، تفتیشی ٹیم نے حالیہ ملاقات میں عمران خان سے پوچھا کہ ان کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کو پاکستان اور بیرونِ ملک کون لوگ چلا رہے ہیں۔ اس پر عمران خان نے کہا کہ وہ ایک محب وطن پاکستانی جبران الیاس نامی شخص چلاتا ہے۔ تاہم، جب ٹیم نے نشاندہی کی کہ جبران الیاس برطانوی شہریت رکھتے ہیں، تو عمران خان نے غصے کا اظہار کرتے ہوئے بدزبانی شروع کر دی۔ سینیئر صحافی شکیل انجم کے مطابق ٹیم کا مقصد صرف یہ جانچنا تھا کہ آیا عمران کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کے ذریعے غیر ملکی یا ریاست مخالف عناصر سے رابطہ تو نہیں ہو رہا، کیونکہ یہ معاملہ قومی سلامتی سے جڑا ہوا ہے — بالخصوص عمران خان کے سابق وزیرِاعظم ہونے کے تناظر میں۔

 

تاہم، اس سوال پر عمران خان شدید برہم ہو گئے، انہوں نے ٹیم اراکین کو گالیاں دیں اور گندے اشارے کرتے ہوئے انہیں کمرے سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ اس موقع پر عمران خان نے انتہائی غصے کا مظاہرہ کیا، جسمانی حرکات سے اشتعال ظاہر کیا اور ٹیم سے بدتمیزی کی۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کے مطابق، وہ تمام نکات جنہیں بعد میں عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے بیان کیا گیا، کبھی بھی ان چار ملاقاتوں میں زیرِ بحث نہیں آئے۔۔لیکن عمران خان نے چوتھی ملاقات کے بعد 2 اکتوبر کو اپنے آفیشل ٹوئیٹر اکاؤنٹ سے 5 سوالات اپ لوڈ کئے اور مؤقف اختیار کیا یہ سوالات تفتیشی ٹیم کی جانب سے پوچھے گئے ہیں۔

عمران خان کا انقلاب لانے کا خواب چکنا چور کیسے ہوا؟

شکیل انجم کے مطابق عمران خان نے اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کے لیے یہ جھوٹا دعوی کیا کہ تفتیشی ٹیم نے ان سے پوچھا کہ یہ عاصم لا کیا ہوتا ہے جس کا آپ اپنی ٹویٹس میں اکثر ذکر کرتے ہیں۔ عمران کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر کی گئی پوسٹ میں بتایا گیا کہ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ملک میں جو بھی بربادی ہے وہ عاصم لاء کے تحت ہے اور یہ کوئی پراپیگنڈا نہیں بلکہ زمینی حقائق پر مبنی بات ہے۔ سب سے پہلے مجھے رینجرز نے احاطہ عدالت سے اغواء کیا اور نو مئی کا فالس فلیگ کروایا گیا۔ 9 مئی 2923 کا آپریشن منصوبہ بندی سے کیا گیا ورنہ چند گھنٹوں میں پی ٹی آئی کے دس ہزار لوگ گرفتار نہ کیے جاتے۔ اس منصوبے سے نا صرف تحریک انصاف کو کچلا گیا بلکہ انسانی حقوق کی بھی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔اس کے بعد عوام نے ہمیں دو تہائی مینڈیٹ دیا جسے چوری کر کے ان چوروں کو ملک پر مسلط کر دیا گیا جن کی کرپشن کی داستانیں آئی ایس آئی خود مجھے سناتی تھی۔ پھر جس الیکشن کمشنر پر آرٹیکل 6 لگناچاہیے تھا اسے نو ماہ کی ایکسٹینشن دے دی گئی۔ فارم 47 ایوان کے ذریعے چھبیسویں ترمیم منظور کروائی گئی اور ایسے ضمیر فروش ججز کو اوپر لایا گیا جن سے انصاف کی کوئی امید نہیں بچی۔ ہر ادارے کو تباہ کر دیا گیا ہے۔ آئی ایس آئی اب محض عاصم کا ذاتی مافیا بن کر رہ گئی ہے، جس کی واحد ڈیوٹی کسی بھی طریقے سے تحریک انصاف کو کچلنا ہے۔  یہ سب عاصم لاء کے تحت ہو رہا ہے۔

 

Back to top button