ضیاء آمریت کی پیداوار کچے کے ڈاکو قابو میں کیوں نہیں آرہے؟

 

 

 

سندھ اور پنجاب کے کچے کے علاقوں میں سرگرم ڈاکو ضیاء آمریت کی پیدوار نکلے۔ کچے کے 4سو سے زائد ڈاکوؤں پر کی گئی تحقیق کے سامنے آنے والے نتائج کے مطابق سنہ 1984 سے 1994 کے دس برس میں سندھ میں ضیا مخالف سیاسی قوتوں کو کمزور رکھنے اور بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت سے لوگوں کو بدظن کرنے کے لیے دانستہ طور پر ڈاکو راج کو کھلی چھوٹ دی گئی اس پالیسی کے نتیجے میں آج نہ صرف کچے کے علاقے مکمل طور پر نوگو ایریاز بن چکے ہیں بلکہ ان علاقوں سے گزرنے والی موٹرویز پر بھی ڈاکو راج قائم ہے۔ تاہم اب کچے کے ڈاکوؤں نے تنگ ہوتے ہوئے شکنجے کو دیکھ کر توبہ تائب ہو کر قانون پسندی کی زندگی گزارنے کے نعرے لگانے شروع کر دئیے ہیں۔ سندھ حکومت کی کچے کے جنگلات میں روپوش ڈاکوؤں کو ہتھیار ڈالنے کی شرط پر سماجی دھارے میں شامل ہونے کے لیے جان و مال کے تحفظ کی ترغیبات کے بعد 72 ڈاکو سرنڈر کر چکے ہیں جبکہ 2سو سے زائد ڈاکو جلد ہتھیار ڈالنے والے ہیں

 

 

شاہ لطیف یونیورسٹی خیرپور کے محقق استاد امداد علی سہتو کے مطابق کچے کے ڈاکو مکمل ناخواندہ نہیں ہیں بلکہ ۔ ان میں ڈگری ہولڈرز کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ مقامی قبائل اور سرداروں کی سرپرستی کی وجہ سے اس وقت یہ ڈاکو اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ سناٹا چھاتے ہی نہ صرف لوٹ مار شروع کر دیتے ہیں بلکہ اس علاقے میں اغواء برائے تاوان کی وارداتیں بھی بہت عام ہیں، کچے کی ڈاکوؤں کی یہ کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں 1984سے 1994 کے دس برسوں میں کراچی تا میرپور ماتھیلو لگ بھگ ساڑھے گیارہ ہزار لوگ اغوا برائے تاوان کا شکار ہوئے جبکہ ایک واردات میں حیدرآباد ضلع کے اللہ ڈینو ساند ریلوے سٹیشن کے قریب چلتی مسافر ٹرین کو جیپوں اور گھوڑوں پر سوار ایک گروہ نے گبر سنگھ اسٹائل میں رکوا کے اطمینان سے لوٹا۔

 

بالاخر مئی 1992 سے نومبر 1994 کے دوران فوج کی مدد سے ’آپریشن بلیو فاکس‘ میں جنوبی اور وسطی سندھ کو بہت حد تک ڈاکو راج سے پاک کر دیا گیا۔ جس کے بعد محب شیدی، نانگ مارفانی، حاجی عباس خاصخیلی، بقدر شاہ، لائق چانڈیو، کمانڈو غلام رسول اور صادق گڈانی جیسے خطرناک گروہ ختم ہو گئے۔ تاہم ڈاکو راج کا مکمل صفایا نہ کیا جا سکا۔ چند برس بعد نئے گروہوں نے ان کی جگہ لے لی۔ سماجی ماہرین کے مطابق کچے کے علاقے سے ڈاکو راج ختم نہ ہونے کی اصل وجہ وہاں کے مقامی حالات ہیں۔ کچے میں سماجی، سیاسی و معاشی گھٹن کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ جب 1983 میں دادو کے پریل عرف پرو چانڈیو کو دھوکے سے مارا گیا تو اس کے جنازے میں ہزارہا کا مجمع تھا۔ قبر اجرکوں سے اٹ گئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پرو چانڈیو اپنے دور کا رابن ہڈ اور سلطانہ ڈاکو مشہور تھا۔ یعنی وہ طاقتور کو لوٹو اور کمزوروں میں تقسیم کرو کے نظریے پر کاربند تھا۔ وہ کسی بچے، بوڑھے اور خاتون پر ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔ اسی وجہ سے پرو چانڈیو ایک فلمی کردار کی طرح پسے ہوئے محروم سماج کی دیومالا میں شامل ہو گیا تھا۔

 

تاہم مبصرین کے مطابق آج کے ڈاکوؤں کا کلچر، نظریہ اور ضابطہِ اخلاق بالکل مختلف ہے۔ یہ ٹک ٹاک، یو ٹیوب، انسٹا اور فیس بک کا پروفیشنل استعمال کرتے ہیں۔ یہ صرف موٹی مرغیوں پر ہاتھ نہیں ڈالتے ۔بلکہ کوئی بھی بوڑھا، بچہ، جوان، عورت ہاتھ آ جائے، سب کو تر نوالہ سمجھتے ہیں۔ تاوان دو ورنہ لاش لے جاؤ اور پھر یہ مغویوں کی ٹارچر زدہ وڈیوز بھی اپ لوڈ کرتے رہتے ہیں۔ اب تو یہ گینگ زنانہ آواز میں لبھانے والی باتوں سے شکار گھیرنے میں بھی طاق ہو چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ڈاکوؤں کے ان گروہوں کو منہ دینے والی پولیس عموماً اسلحے کی کمتری سے مار کھاتی آئی ہے کیونکہ کچے کے ڈاکوؤں کے متعدد گروہوں کے پاس ملٹری گریڈ کا اسلحہ موجود ہے۔ کئی گروہوں کے پاس طیارہ شکن گنیں، اینٹی ٹینک مارٹرز اور آر پی جی راکٹ لانچرز بھی دستیابہیں۔ جن سے پولیس کی بکتر بند گاڑیوں کو بھی آرام سے چھیدا جا سکتا ہے۔ اسی لئے کچے کے دریائی جنگلوں میں پولیس کیلئے کوئی بھی آپریشن رینجرز اور فوج کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوتا۔

مبصرین کے مطابق پولیس، ڈاکو، پتھارے دار، سرکار گٹھ جوڑ اگرچہ حقیقت ہے لیکن جو افسر اس دائرے کو توڑنا بھی چاہیں تو انھیں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ تاہم اب حکومت سندھ نے ڈاکوؤں کوکسی آپریشن کی بجائے سرنڈر پالیسی کے ذریعے رام کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہے تاہم مبصرین کے مطابق حکومتِ سندھ نے ہتھیار ڈالنے کے لیے ڈاکوؤں کی حوصلہ افزائی کی جو نئی پالیسی اپنائی ہے وہ اتنی نئی بھی نہیں۔انیس سو اسی کے عشرے میں بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے دشوار گزار علاقے چنبل میں عشروں سے سرگرداں ڈاکوؤں کے لیے بھی ایسی ہی حکمتِ عملی اپنائی گئی۔ جس کے مثبت نتائج سامنے آئے تھے اب کچے کے ڈاکو بھی بھارتی پھولن دیوی کی طرح سیاست میں آ کر سماج کی مدد کرنے کے وعدے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ناقدین کے مطابق لگتا ہے کچے کے ڈاکوؤں کی نئی پود کو رفتہ رفتہ یہ راز سمجھ میں آ رہا ہے کہ جتنا پیسہ جنگلوں میں رہ کر قانون سے بھاگتے رہنے میں بنایا جاتا ہے اور بدنامی بھی الگ ہوتی ہے۔ اس سے کہیں زیادہ رسوخ اور دھن تھوڑی ذہانت استعمال کر کے قانون کو سمجھ کر جنگل سے باہر رہ کر  ’شرافت‘ سے بھی کمایا جا سکتا ہے ۔اور اس میں عزت بھی چوکھی ملتی ہے۔

 

Back to top button