نواز شریف کو نااہل کرنے والے جسٹس عظمت شیخ کی کہانی

سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عظمت سعید شیخ کو بھی ایک عمراندار جج قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے دور منصفی میں جسٹس عظمت سعید شیخ نے کئی ایسے فیصلے کئے جن کے دوررس سیاسی نتائج سامنے آئے۔بطور سپریم کورٹ جج ان کے کیرئیر میں سب سے بڑا فیصلہ پانامہ کیس سے متعلق تھا۔ جسٹس عظمت سعید شیخ سپریم کورٹ کے ان 5ججز میں شامل تھے جنہوں نے سابق وزیراعظم اور قائد مسلم لیگ ن میاں نواز شریف کے اثاثہ جات کی چھان بین کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دینے کا حکم دیا تھا۔بعد ازاں اسی جے آئی ٹی کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو اُن کے عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا گیا۔
12 فروری 2025 کو لاہور کے نجی ہسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال کر جانے والے جسٹس عظمت سعید شیخ کو چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کے دور میں یکم جون 2012 کو سپریم کورٹ میں مستقل جج کی حیثیت سے تعینات کیا گیا تھا جبکہ جولائی 2019 میں انہوں نے قائم مقام چیف جسٹس آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تھا۔
جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کا شمار پاکستان کی عدالتی تاریخ کے اُن ججوں میں ہوتا ہے جن کے ہاتھوں سے ایسے فیصلے لکھے گئے جنہوں نے پاکستان کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے۔جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید کا تعلق لاہور سے تھا اور انہوں نے 1980 میں وکالت کے شعبے میں قدم رکھا۔ بطور وکیل انہوں نے کارپوریٹ وکالت کی پریکٹس کی۔قانونی ماہرین کے مطابق وہ ٹیکس اور کاروباری و قانونی معاملات پر ایک سند کی حیثیت رکھتے تھے۔ان کی وکالت میں پہلا موڑ اُس وقت آیا جب انہوں نے 1997 میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کے بنائے گئے احتساب بیورو میں خصوصی پراسیکیوٹر کے طور پر ذمہ داریاں سر انجام دیں۔
اس کے بعد سابق فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں جب قومی احتساب بیورو یعنی نیب کا ادارہ بنایا گیا تو 2001 میں شیخ عظمت سعید نیب کے ڈپٹی پراسیکیوٹر بنے۔
ق لیگ کے دور حکومت میں 2004 میں انہیں پہلی دفعہ لاہور ہائی کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کیا گیا بعد ازاں 2005 میں وہ لاہور ہائی کورٹ کے مستقل جج بن گئے۔2007 میں جب پرویز مشرف نے ایمرجنسی لگا کر چیف جسٹس افتخار چوہدری کو گھر میں نظر بند کیا تو اُس وقت جن ججز نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا تھا، شیخ عظمت سعید ان میں سے ایک تھے۔انہیں ڈیفنس ہاوسنگ سوسائٹی میں ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا گیا۔
نومبر 2011 میں ان کو چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ مقرر کر دیا گیا۔ ایک سال چیف جسٹس رہنے کے بعد سال 2012 میں وہ سپریم کورٹ کے جج بنے۔
تحریک انصاف کی حکومت نے جب شریف فیملی کی مبینہ کرپشن ’ڈھونڈنے کے لیے‘ براڈ شیٹ نامی کمپنی کی خدمات حاصل کیں تو ایک خطیر رقم سرکاری خزانے سے جاری ہونے کے بعد معاملہ متنازع ہو گیا۔وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے جنوری 2021 میں براڈشیٹ کے معاملے پر انکوائری کمیٹی قائم کی تو جسٹس عظمت سعید شیخ کو اس کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔
شیخ عظمت سعید لاہور ہائی کورٹ کے اُن چار ججز میں سے تھے جنہوں نے 2007 کی پرویز مشرف کی ایمرجنسی میں پہلے تو حلف نہ اُٹھایا لیکن بعد میں افتخار چوہدری کی معطلی کے باوجود آئین بحال ہونے پر حلف اُٹھا لیا۔ باقی تین ججز میں ثاقب نثار، آصف سعید کھوسہ اور عمر عطا بندیال شامل تھے۔جب افتخار چوہدری بطور چیف جسٹس بحال ہوئے اور سپریم کورٹ نے پی سی او کے تحت حلف لینے والے 100 ججز کو ایک فیصلے کے نتیجے میں فارغ کر دیا تو یہ چاروں جج بدستور لاہور ہائی کورٹ میں اپنے عہدوں پر براجمان رہے۔بعد میں ان چاروں ججز کا پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں کردار کسی سے ڈھکا چُھپا نہیں ہے۔
سپریم کورٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جسٹس عظمت سعید شیخ عدالتی معاملات میں بہت گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ کئی جج جو ان کے شاگرد تھے، اور وہ ان کی رہائش گاہ پر باقاعدگی سے آتے تھے۔
جب ثاقب نثار متنازع ہونا شروع ہوئے تو یہ بات شیخ عظمت سعید کو بہت ناگوار گزر رہی تھی۔ شیخ عظمت سعید صحافیوں کے انٹرویو کے مطالبے پر کہا کرتے تھے کہ ’جتنے راز میرے اندر ہیں اس پر تو میرا دل کرتا ہے کہ کتاب لکھوں لیکن کتاب تو نہیں لیکن میں ایک ڈائری ضرور لکھ رہا ہوں جو میرے مرنے کے بعد منظرعام پر آئے گی۔‘ تاہم اب دیکھنا ہے کہ ان کی ذاتی دائری کب سامنے آتی ہے اور اس میں کون کون سے راز افشاء ہوتے ہیں۔