امریکہ بھی ایران کے خلاف جنگ میں کود پڑا، تین ایرانی نیوکلیئر سائٹس پر حملے

امریکہ نے ایران اسرائیل جاری جنگ میں باقاعدہ شمولیت اختیار کرتے ہوئے تین ایرانی جوہری سائٹس پر حملہ کر کے انھیں تباہ کر دیا۔ امریکی بی ٹی طیاروں نے فردو، نطنزا ور اصفہان میں واقع تین جوہری تنصیبات کو نشانہ بنایا۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر ان کارروائیوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے ایران پر فضائی حملے کامیاب رہے اور فردو ایٹمی تنصیب مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ہے۔
ایرانی حکام کا کہنا ہے کہ امریکی حملے سے قبل تمام جوہری تنصیبات کو خالی کرا لیا گیا تھا۔انہوں نے وضاحت کی کہ امریکی فضائی حملے کے باوجود ان مراکز میں ایسا کوئی مواد موجود نہیں تھا جو اخراج کے بعد نقصان پہنچا سکتا۔ایران نے مزید کہا کہ وہ مستقبل میں بھی اپنا جوہری پروگرام جاری رکھے گا اور اقوامِ متحدہ کے قواعد و ضوابط اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل پاسداری کرے گا۔
امریکی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ امریکا نے فردو میں واقع ایرانی جوہری مرکز کو نشانہ بنانے کے لیے بی ٹو بمبار طیاروں کا استعمال کیا، جن سے چھ ’بنکر بسٹر‘ بم گرائے گئے۔اس کے علاوہ، نطنز اور اصفہان کے مقامات پر کیے گئے حملوں میں تقریباً 30 ٹوماہاک کروز میزائل داغے گئے۔ رپورٹس میں ان کارروائیوں میں جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے واشنگٹن سے جاری بیان میں کہا کہ حملے کا مقصد ایران کی جوہری افزودگی کی صلاحیت کا خاتمہ تھا۔ان کے بقول، یہ رات کے سب سے چیلنجنگ اہداف تھے، اور اگر ایران نے امن کا راستہ نہ اپنایا تو مستقبل میں مزید کارروائیاں کی جائیں گی۔ ٹرمپ نے واضح کیا کہ ایران کے پاس اب دو ہی راستے ہیں: یا تو جنگ بندی، یا سنگین نتائج۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے صدر ٹرمپ کو اس کارروائی پر سراہا۔انہوں نے کہا کہ امریکی اقدام نے نہ صرف واشنگٹن بلکہ بین الاقوامی سطح پر ایک مضبوط پیغام دیا ہے۔نیتن یاہو کے مطابق اسرائیل نے اپنی فوجی قوت کا بھرپور مظاہرہ کیا اور اس نوعیت کی وسیع کارروائی تاریخ میں ایک مثال کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔
تاہم مبصرین کے مطابق امریکی حملے نے جوہری تنصیبات کو نشانہ بنا کر خطے میں سخت کشیدگی کو جنم دیا ہے۔ ایران نے ان حملوں کو کھلی جارحیت قرار دیا، جبکہ امریکا اور اسرائیل نے اسے جوہری خطرے کے خاتمے کا قدم قرار دیا ہے۔
یہ واقعہ مستقبل قریب میں ایران، امریکا اور اسرائیل کے درمیان مزید تناؤ اور ممکنہ جوابی اقدامات کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔