ٹرمپ کی نامزدگی: جوتے اور پیاز کھانے والا سفارتی بلنڈر کس نے کیا ؟

پاکستان کی جانب سے امریکی صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کے صرف ایک روز بعد ہی موصوف نے ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں کا حکم جاری کر دیا۔ چنانچہ سر منڈاتے ہی اولے پڑنے کے بعد پاکستانی فیصلہ ساز سوشل میڈیا پر شدید تنقید کی زد میں ہیں اور ٹرمپ کی نامزدگی کے سفارتی بلنڈر کو جوتوں کیساتھ پیاز کھانے کے مترادف قرار دیا جا رہا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ جب ملک کی فارن پالیسی سے متعلقہ فیصلے سویلینز کی بجائے عسکری قیادت کرے گی تو ایسے ہی بلنڈر ہوں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 24 گھنٹے پہلے تک ٹرمپ کی امن کوششوں کے اعتراف میں انہیں امن کا عالمی انعام دنوانے کی سفارش کرنے والی حکومت پاکستان نے 24 گھنٹے ہی بعد امریکی صدر کے حکم پر ایرانی نیوکلیئر تنصیبات پر بمباری کی سخت مذمت کر دی۔ پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے کہا گیا کہ امریکی حملے اسرائیلی حملوں کے سلسلے کا تسلسل ہیں، یہ حملے بین الاقوامی قانون کی تمام اقدار کی کھلی خلاف ورزی ہیں، اور یہ کہ ایران کو اقوام متحدہ کے چارٹر کے تحت اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ ایسے میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پہلے موقف پر یقین کیا جائے یا دوسرے پر، وجہ یہ ہے کہ پاکستان نے ابھی تک امریکی صدر کی نوبل امن انعام کے لیے نامزدگی واپس لینے کا اعلان نہیں کیا۔

دوسری جانب حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کی نامزدگی کا فیصلہ بنیادی طور پر عسکری قیادت نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی واشنگٹن میں ٹرمپ سے ملاقات کے بعد کیا اور اس بارے وزیراعظم کو آگاہ کر دیا گیا تھا، لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس فیصلے کی اونر شپ حکومتِ ہی کو لینی پڑے گی جس نے امریکی صدر کو 2026 کے نوبیل امن انعام کے لیے باضابطہ طور پر نامزد کرنے کی سفارش کی ہے۔ حکومتِ کی جانب سے جاری سرکاری اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ پاکستان اور انڈیا کے مابین حالیہ جنگ میں صدر ٹرمپ کی فیصلہ کن سفارتی مداخلت اور قائدانہ کردار کے اعتراف میں کیا گیا ہے۔

تاہم بظاہر امریکی صدر نے اسرائیل اور ایران کی جنگ اور پاکستان اور بھارت کی جنگ کے دوران متضاد پالیسیاں اپنائیں۔ انہوں نے ثالثی کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مابین تو جنگ بندی کروا دی لیکن ایران اور امریکہ کی مابین ہونے والے جوہری مذاکرات کے دوران ہی اسرائیل سے ایران پر حملے کروا دیے۔

اس وقت پاکستانی سوشل میڈیا پر حکومت کی جانب سے صدر ٹرمپ کو عالمی امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا فیصلہ شدید تنقید کی زد میں ہے اور اس سے ایک سفارتی بلنڈر قرار دیا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے ہفتے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دعوت پر وائٹ ہاؤس میں ان کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا تھا جس کے بعد وائٹ ہاؤس کی ترجمان، اینا کیلی کا کہنا تھا کہ ٹرمپ نے پاکستانی آرمی چیف جنرل منیر کی میزبانی کی جنھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ روکنے پر صدر ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ ’میں کچھ بھی کر لوں مجھے نوبیل نہیں ملے گا۔‘ خیال رہے کہ اب تک چار امریکی صدور بشمول بارک اوبامہ امن کا نوبیل انعام حاصل کر چکے ہیں۔

تاہم پاکستان ٹرمپ کو یہ انعام دلوانے کے چکر میں رسوا ہو گیا ہے اور یہ کہا جائے تو بے جانا ہوگا کہ اس نے کوئلوں کی دلالی میں اپنا منہ کالا کروا لیا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستانی حکومتِ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ ’انڈیا کی بلا اشتعال اور غیرقانونی جارحیت نہ صرف پاکستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی سنگین خلاف ورزی تھی بلکہ اس کے نتیجے میں کئی بے گناہ شہری ہلاک ہوئے جن میں خواتین، بچے اور بزرگ شامل تھے۔ جس کے بعد پاکستان نے اپنے دفاع کا حق استعمال کرتے ہوئے آپریشن بنیان مرصوص کا آغاز کیا تھا۔‘ بیان میں کہا گیا کہ ’خطے میں کشیدگی کے اس لمحے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سٹریٹیجک دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام آباد اور نئی دہلی کے ساتھ سفارتی رابطوں کے ذریعے تیزی سے بگڑتی ہوئی صورت حال میں کشیدگی کم کی، جنگ بندی کروائی اور دو جوہری ممالک کے درمیان تنازع بڑھنے سے روکا جس کے سبب دنیا کو قیامت خیز نتائج بھگتنا پڑ سکتے تھے۔‘ چنانچہ امریکی صدر کی مداخلت اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ’امن کے داعی‘ ہیں اور تنازعات کو ’بات چیت کے ذریعے حل‘ کرنے کے لیے پُرعزم ہیں۔

حکومتِ پاکستان نے کشمیر کے دیرینہ تنازعے کے حل کے لیے ٹرمپ کی مخلصانہ پیشکش کو بھی سراہا۔

پاکستانی بیان میں کہا گیا کہ 2025 میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیدا ہونے والے بحران کے دوران صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی حکمتِ عملی ان کے ماضی کے امن قائم کرنے والے اقدامات کا تسلسل ہے۔ پاکستان کو امید ہے کہ ان کی مخلص کوششیں نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ دنیا کے دیگر حساس خطوں میں بھی امن و استحکام کے لیے معاون ثابت ہوں گی۔حکومتی بیان میں مشرقِ وسطیٰ کے موجودہ بحران، بالخصوص غزہ میں جاری انسانی المیے اور ایران سے متعلق بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں بھی صدر ٹرمپ کی قیادت اور سفارتی کردار کو سراہا گیا۔ پاکستان نے امید ظاہر کی ہے کہ صدر ٹرمپ کی کوششیں عالمی استحکام کے لیے مثبت نتائج لائیں گی۔

پاکستان میں سوشل میڈیا صارفین حکومت کے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں، خاص طور پر ایران پر ہونے والے امریکی حملوں کے بعد۔

اینکر پرسن طلعت حسین نے لکھا کہ ’یہ فیصلہ انتہائی تکلیف دہ، افسوسناک اور مضحکہ خیز ہے۔ نہ وقت کا لحاظ کیا گیا، اور نہ ہی عقل کا استعمال۔ جو شخص غزہ میں اسرائیل کی تباہ کاریوں کا سرپرست اور ایران پر حملوں کا حمایتی ہے، وہ کسی امن انعام کا امیدوار کیسے ہو سکتا ہے؟ اور اگر چند ماہ بعد وہ دوبارہ مودی کو گلے لگا کر محبت کے نعرے لگانے لگے تو پھر پاکستان کیا کرے گا؟

امریکہ کیلئے سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی نے لکھا کہ ’ویسے یہ بھی ممکن تھا کہ نوبیل امن انعام کی خواہش خود پسند ڈونلڈ ٹرمپ کو ایران کے خلاف اسرائیل کی فوجی کارروائی میں شرکت سے روکنے کا سبب بن جاتی۔ لیکن صد افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔

Back to top button